• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عبداللہ بھٹی المعروف دُلا بھٹی، جس کو پنجاب کا رابن ہُڈ بھی کہا جاتا تھا (دُلا بھٹی سرکاری خزانوں اور امیرلوگوں کا مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا)، کے گوریلا حملوں کے سدِ باب کے لئے عظیم مغل بادشاہ اکبر کو اپنا دارالحکومت دہلی سے لاہور منتقل کرنا پڑا۔ دریائے راوی اور دریائے چناب کا درمیانی علاقہ اسی دُلا بھٹی کے بزرگ ساندل کے نام کی نسبت ساندل بار کہلایا۔ پاکستان کی چار مشہور رومانوی داستانوں ( سَسی پنوں، سوہنی ماہیوال ، ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں) میں سے صرف سَسی پنوں کی داستان کا تعلق صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تھا ۔ ہیر رانجھا اور مرزاصاحباں کی داستانوں میں ہیر، مرزا اور صاحباں کا تعلق اِسی ساندل بار سے ہی تھا ۔ سوہنی مہینوال کی داستان میں سوہنی کا تعلق اگرچہ ساندل بار سے تو نہیں تھا مگر دریائے چناب کے دوسرے کنارے سے ضرور تھا۔اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ تاریخی طور پر یہ خطہ عشق محبت کی داستانوں کے حوالے سے کافی’’مردم خیز‘‘ رہا ہے ۔ ساندل بار کا وہ علاقہ جہاں مرزا صاحباں کے کردار مرزا خان کھر ل نے جنم لیا، کے قریب ایک قصبہ سیدوالا میں مرزا خان کے ’’کھرل‘‘قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے فرزانہ اور اقبال کی داستان عشق کچھ دن پہلے اپنے انجام کو پہنچی ۔اس داستان کا انجام ایسے ہوا کہ اس کی خبر دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ۔ ویسے تو محبت کی اس داستان کے بارے میں پچھلے چند دنوں میں کافی کچھ لکھا جاچکا ہے (پطرس بخاری نے کسی کتاب یا کہانی کو پڑھے بغیر اس پر گہرائی سے تبصرہ کرنے کا فن بہت عمدگی سے لکھاریوں اور دانشوروں تک پہنچادیا ہے ) مگر ہم نے ضروری سمجھا کہ اس داستان کے تفصیلی حقائق بھی اب عوام اور خاص طور پر دانشوروں ، کالم نگاروں اور عمرانیات کے علم کے ماہرین کے لئے بلا تبصرہ بیان کردیئے جائیں تاکہ بعد ازاں وہ اس پر سیر حاصل تبصرہ کرسکیں۔
فرزانہ کا تعلق ایک چھوٹے زمیندار گھرانے سے تھا ۔ فرزانہ کے باپ عظیم کی کل زرعی ملکیت شاید چند ایکڑ پر مشتمل ہے ۔ فرزانہ کا دوسرے شوہر محمد اقبال، جس کی عمر50سال کے لگ بھگ ہے ، 2008 میں اپنی پہلی بیوی عائشہ کو عزت کے نام پر قتل کردیتا ہے۔ اس قتل سے پہلے عائشہ اپنے خاوند محمد اقبال سے لڑ جھگڑ کر تقریباً 2سال تک اپنے ماں باپ کے گھر رہتی ہے ۔ قتل سے ایک ہفتہ قبل محمد اقبال اسے مناکر اپنے گھر لاتا ہے اور ایک رات بہانے سے اسے گھر سے باہر کھیتوں میں لے جاتا ہے اور وہاں قتل کرکے اپنی ’’عزتـ‘‘بچالیتا ہے۔ تھانہ سیدوالا میں محمد اقبال پر قتل کا مقدمہ درج ہوتا ہے ۔ پولیس کے چھاپوں سے تنگ آکر محمد اقبال فرزانہ کے والد عظیم کے گھر آکے پناہ لیتا ہے اور تقریباً تین ساڑھے تین سال تک ان کے گھر قیام کرتا ہے ۔ فرزانہ کے والد عظیم اور محمد اقبال کے درمیان ایسا قریبی تعلق اور دوستی پروان چڑھتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ’’پگڑی بدل‘‘بھائی بن جاتے ہیں ۔ فرزانہ کے والد عظیم کے خاندانی معاملات میں تمام فیصلے یہی محمد اقبال ہی کرتا ہے اور تمام معاملات میں سب سے آگے ہوتا ہے ۔اپنے باپ سے ایسا قریبی تعلق ہونے کی بدولت فرزانہ اور اس کی دوسری بہنیں محمد اقبال کو اپنے باپ کی جگہ پر سمجھتی ہیں اور اُسے چچا کہہ کر مخاطب کرتی ہیں اور لامحالہ اقبال کو فرزانہ سمیت ان بچیوں کو بیٹا بیٹا کہہ کر مخاطب کرنا پڑتا ہے۔ اسی دوران 2012 میں عظیم اپنی بیٹی فرزانہ کی شادی اپنے ایک رشتہ دار مظہر اقبال سے کردیتا ہے مگر بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے کسی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ محمد اقبال اپنے اسی قیام کے دوران اپنے پیار محبت کی پینگیں فرزانہ کے ساتھ استوار کرلیتا ہے ۔ اگرچہ گھر والوں اور’’ظالم سماج‘‘کے سامنے فرزانہ اور محمد اقبال کی یہ محبت ’’چچا ‘‘اور ’’ بیٹی ‘‘کے لبادے میں ہی پروان چڑھتی رہی۔ 2012 میں فرزانہ کی مظہر اقبال سے شادی اور رخصتی کے کچھ عرصہ بعد محمد اقبال بھی بادل نخواستہ عظیم کے گھر سے رخصت ہوتا ہے اور ’’بڑے گھر‘‘یعنی تھانہ سیدوالا کی حوالات میں جاپہنچتا ہے۔ محمد اقبال کا اپنی بیوی عائشہ کے قتل کا مقدمہ عدالت میں چلتا ہے ۔ صرف چند ماہ بعد محمد اقبال اور مقتولہ عائشہ کا بڑا بیٹا اورنگزیب اور مقتولہ عائشہ کا بھائی (عائشہ قتل کیس کا مدعی) دونوں مل کر محمد اقبال کے ساتھ راضی نامہ کرلیتے ہیں اور مقتولہ عائشہ کا قتل تقریباًسات لاکھ روپے میں معاف کردیتے ہیں ۔ اسی رقم میں سے زیادہ حصہ مقتولہ عائشہ اور محمد اقبال کے بڑے بیٹے اورنگزیب کو جاتا ہے اور تھوڑا حصہ قتل کے مدعی عائشہ کے بھائی کو ملتا ہے ۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد محمد اقبال فرزانہ کے ساتھ اپنی محبت کی پینگ وہاں سے شروع کرتا ہے جہاں سے وہ چھوڑ کر گیا تھا ۔’’ظالم سماج‘‘کے آڑے آنے اور کوئی دوسرا قانونی راستہ نہ ملنے کے سبب محمد اقبال جنوری 2014 میں فرزانہ کو اپنے ساتھ لے کر مرزاصاحباں کے گاؤں’’ دانا آباد‘‘ کے راستے فیصل آباد چلاجاتا ہے ۔ وہاں پر چند ہزار روپے خرچ کرکے فرزانہ کے ساتھ رشتہ نکاح میں بندھ جاتا ہے ۔ امکان ہے فرزانہ نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ تو پہلے سے مظہر اقبال کے ساتھ شادی شدہ ہے اور ابھی تک اس نے مظہر اقبال سے طلاق بھی نہیں لی۔ مگر شاید محمد اقبال مرد کی چار شادیوں کی اجازت کا سہارا لے کر بیچاری فرزانہ کو مطمئن کرلیتا ہے۔ فرزانہ کا پہلا شوہر مظہر اقبال ،اپنی بیوی کو بھگالے جانے پر، محمد اقبال کے خلاف مقامی تھانہ میں مقدمہ درج کرواتا ہے ۔ غالباً اسی مقدمہ کے ڈر کی وجہ سے یہ پریمی جوڑا پاکپتن کا سفر اختیار کرتا ہے ۔ فرزانہ اپنے آپ کو ضلع پاکپتن کی ظاہر کرکے وہاں کی مقامی عدالت میں اپنے پہلے نکاح ،جو کہ مظہر اقبال کے ساتھ ہوا تھا ، کا تنسیخ کادعویٰ دائر کرتی ہے ۔ وہاں کی مقامی عدالت اسے دارالامان میں منتقل کردیتی ہے ۔ ادھر پیچھے سیدوالا تھانہ میں مظہر اقبال یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ چونکہ اس کی بیوی فرزانہ نے میرے نکاح میں ہوتے ہوئے جنوری 2014 میں محمد اقبال کے ساتھ دوسرے نکاح کا ارتکاب کیا اور فروری میں پاکپتن میں جاکر میرے خلاف تنسیخ نکاح کا دعویٰ کردیا ہے ۔لہٰذا، مظہر اقبال کے نزدیک ،یہ اس چیز کا واضح ثبوت ہے کہ فرزانہ محمد اقبال کے ساتھ زناء کاری کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس پر ننکانہ کی مقامی عدالت فرزانہ کے اغواء کے مقدمہ میں زناء کی دفعات کا اضافہ کرنے کا حکم دیتی ہے ۔ جب مقامی پولیس کو اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ فرزانہ پاکپتن کے دارالامان میں موجود ہے تو مقدمہ کا تفتیشی افسر فرزانہ کا بیان ریکارڈ کرنے پاکپتن پہنچتا ہے تو وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ فرزانہ وہاں سے نکل چکی ہے ۔ کچھ عرصہ بعد فرزانہ کے دوسرے شوہر محمد اقبال کا ایک ملزم ساتھی لاہور ہائی کورٹ میں محمد اقبال اور اپنے اوپر درج فرزانہ کے اغواء کے مقدمے کی تنسیخ کی پٹیشن دائر کرتا ہے ۔ 27مئی کو صبح 8بجے کے قریب فرزانہ محمد اقبال کے حق میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے ہائی کورٹ کے قریب پہنچتی ہے تو مبینہ طور پر فرزانہ کے والد عظیم، پہلے شوہر مظہر اقبال اور ان کے ہمراہی دوسرے ملزمان فائرنگ اور اینٹوں کے وار کرکے فرزانہ کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں۔
یہاں پر اس بات کا اضافہ بھی مناسب ہوگا کہ آج سے تقریباً 2سال قبل فرزانہ کی دوسری بہن ریحانہ کے ساتھ بھی مبینہ طور پر ایک المناک حادثہ پیش آیا تھا ۔ علاقے کے کچھ لوگ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ فرزانہ کی بہن ریحانہ ایک دن جب اپنے موبائل فون پر کسی سے بات کررہی تھی تو ریحانہ کے ایک چچا زاد بھائی نے پیچھے سے آکر ریحانہ کی کمر پر کسی چیز سے وار کیا ۔ اُس کے نزدیک ریحانہ شاید اپنے کسی آشنا کے ساتھ بات کررہی تھی ۔ اِس چوٹ کی وجہ سے ریحانہ کی طبیعت بگڑتی چلی گئی اور آخر کار اس دنیا سے رخصت ہوکر اپنے خاندان کی ’’عزت‘‘ بچا گئی ۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس وقوعہ کے بارے میں مقامی پولیس کو بے خبر رکھ کر ریحانہ کو دفنا دیا گیا۔
تازہ ترین