• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپانی حکومت نے جب پاکستان کے صوبائی وزرائے اعلیٰ پر اپنی تحقیق اور جائزہ مکمل کیا تو ان کی نظر سب سے پہلے مریم نواز پر ٹھہری۔ وجہ یہ تھی کہ وہ محض سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی بیٹی نہیں بلکہ ایک فعال، ذہین اور کمٹمنٹ کی پکی رہنما کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ پنجاب کی ترقی کیلئے ان کی شبانہ روز کاوشیں جاپانی اہلکاروں کی نظر میں بھی نمایاں تھیں، اس لیے جب فیصلہ ہوا کہ پاکستان کے کس وزیراعلیٰ کو پہلے جاپان کے سرکاری دورے کی دعوت دی جائے تو انتخاب اور اتفاق مریم نواز پر ہوا۔ اس دعوت میں نہ صرف جاپان کی اعلیٰ حکومتی قیادت سے ملاقاتیں شامل تھیں بلکہ ان اداروں کے دورے بھی ترتیب دیے گئے جنہوں نے جاپان کو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔

یہ دورہ محض رسمی یا پروٹوکول نوعیت کا نہیں تھا بلکہ یہ ایک عملی تربیتی عمل تھا۔ جاپان کے اداروں کی باریکیوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ پنجاب کے نظام میں ان اصلاحات کو لایا جا سکے جو وہاں کامیابی کی ضمانت بن چکی ہیں۔ جاپان کے شہر اوساکا میں جاری ورلڈ ایکسپو میں پاکستان کا پویلین پہلے ہی لاکھوں سیاحوں کی توجہ حاصل کر رہا تھا۔ پنک سالٹ نے نمائش میں دھوم مچا رکھی تھی اور دس لاکھ سے زائد لوگ پاکستانی اسٹال کا دورہ کر چکے تھے۔ مریم نواز نے اس پویلین کا دورہ کیا تو جاپان کے عوام اور بین الاقوامی کمیونٹی کے سامنے پاکستان کا روشن اور مثبت رخ مزید اجاگر ہوا۔

مریم نواز کے جاپان پہنچنے کے دن پاکستانی کمیونٹی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ ان کیلئے یہ محض ایک سیاسی لیڈر کی آمد نہ تھی بلکہ ایک ایسی شخصیت کا استقبال تھا جو نواز شریف کے سیاسی ورثے کی امین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت اور کارکردگی کی بنیاد پر ایک الگ شناخت بنا چکی ہیں۔ ان کی نرم مزاجی، خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے ملنے کے انداز نے سب کو متاثر کیا۔

اگلے ہی دن سے انہوں نے سولہ سولہ گھنٹے کی مصروفیات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صبح سویرے سے شام گئے تک ان کا ہر لمحہ سیکھنے اور آگے بڑھنے کے جذبے سے بھرا ہوا تھا۔ ان کی ٹیم جس میں مریم اورنگزیب، پرویز رشید، عظمٰی بخاری، ثنا عاشق اور دیگر وزراء شامل تھے، ہر وقت ان کے ساتھ رہے۔ جب لیڈر صبح سات بجے تیار ہو تو ٹیم کو بھی اسی رفتار کے ساتھ خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔

اس دورے کے دوران انہوں نے جاپان کے تقریباً ہر شعبے کا وزٹ کیا۔ چاہے وہ ٹریفک کنٹرول کا نظام ہو، ماحولیاتی بہتری کے منصوبے ہوں، الیکٹرک گاڑیوں کے پلانٹ ہوں یا دودھ و بیکری کی صنعت کے حفظان صحت کے اصول—کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جسے مریم نواز نے نظرانداز کیا ہو۔ ہر جگہ سوالات کیے گئے، تجاویز لی گئیں اور بیوروکریٹس کے ذریعے ان تمام چیزوں کو دستاویزی شکل دی گئی تاکہ واپسی پر پنجاب کے اداروں میں ان کا نفاذ ممکن ہو۔ ان کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ جاپان کی ترقی کے راز کو سمجھا جائے اور اسے پنجاب کی ترقی میں ڈھالا جائے۔

ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان کی پارٹی کیلئے قربانیوں سے میاں نواز اور شہباز شریف سے لیکر مریم نواز شریف تک سب واقف ہیں تاہم مریم نواز کے دورہ جاپان کے موقع پر ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان،چیئرمین ملک یونس اور دیگر مقامی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل افیئرز کے سابق جنرل سیکریٹری شیخ قیصر محمود کا کردار بھی لائقِ تحسین ہے۔ وہ اس وقت افریقہ کے ایک کاروباری دورے پر تھے، لیکن جیسے ہی انہیں مریم نواز کے جاپان آمد کی خبر ملی، انہوں نے اپنے تمام کام چھوڑ کر فوری طور پر جاپان کا رخ کیا اور جلسے کی تیاریوں میں شب و روز محنت شروع کر دی۔ ان کی یہ کمٹمنٹ اور قربانی اس بات کا ثبوت ہے کہ مریم نواز کی قیادت کیلئے کارکنان کس حد تک جذبے اور اخلاص سے سرشار ہیں۔

جاپان کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ہونے والا مریم نواز شریف کا جلسہ ایک تاریخی جلسہ بن گیا، جس میں پانچ سو سے زائد نوجوانوں، خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں لیگی کارکنان شریک ہوئے، جلسے میں شرکاء کی جانب سے نعرےاورتالیاں اس بات کا ثبوت تھیں کہ مریم نواز نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے دلوں میں بھی گہری جگہ رکھتی ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے پنجاب حکومت کی کارکردگی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقین دلایا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔جلسے میں شرکاء کا جوش و خروش اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ ن لیگ اور اوورسیز میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کرچکی ہے ۔

مریم نواز کا دورہ جاپان صرف ایک حکومتی شیڈول نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ کا نقطہ آغاز تھا۔ جاپان کی وزارتِ خارجہ کے حکام نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ مریم نواز کی آمد نے پاکستان کا وہ منفی تاثر ختم کر دیا جو عرصے سے قائم تھا۔ ان کے دورے نے پاکستان کا ایک مثبت، خوش مزاج اور ترقی پسند چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پانچ دن کے اس سفر نے پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا کر دی اور مستقبل کیلئے تعاون کے نئے دروازے کھول دیے۔

تازہ ترین