سب جانتے ہیں کہ نئے صوبوں کی بحث کس نے شروع کرائی ہے لیکن رانا ثناء اللّٰہ نے اس بحث کو غیر سنجیدہ قرار دے کر اپنے بہت سے دوستوں اور خیر خواہوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ روزنامہ جنگ میں رانا صاحب کے شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نےالیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی خبر نہیں ہوتی تو نئی آئینی ترمیم اور نئے صوبوں کا شوشَہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے نئے صوبوں کی بحث کو ایک شوشَہ قرار دے کر اس شوشَہ بازی کی ذمہ داری میڈیا پر ڈال دی ہے۔میں نے رانا صاحب کے بیان کو بار بار پڑھا۔ کبھی اس بیان کوالٹا پڑھا اور کبھی سیدھا پڑھا۔ وجہ یہ تھی کہ جس کابینہ میں رانا صاحب وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور کے طور پر شامل ہیں اُسی کابینہ میں عبدالعلیم خان صاحب بھی شامل ہیں۔ عبدالعلیم خان صاحب وفاقی وزیر ہونے کے علاوہ استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور انہوں نےعلی الاعلان نئے صوبوں کے قیام کو پاکستان کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔عبدالعلیم خان کا تعلق حکومت سے بھی ہے اور میڈیا سے بھی ہےکیونکہ وہ ایک ٹی وی چینل کے مالک بھی ہیں۔ یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ نئے صوبوں کی بحث میڈیا نے شروع کی ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ میڈیا کے پاس کوئی خبرنہ ہو تو نئی آئینی ترمیم اور نئے صوبوں کا شوشَہ چھوڑ دیا جاتاہے۔ میڈیا کے پاس خبروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس سے بڑی خبرکیا ہو گی کہ رانا ثناء اللہ نے نئے صوبوں کی بحث کو ایک شوشَہ قرار دے دیا ہے۔ اس خبر کے اندر چھپی ہوئی خبر یہ ہے کہ نئے صوبوں کے مسئلے پر حکومت کے اندر اختلافات موجود ہیں۔ یہ اختلافات اُسی نوعیت کے ہیں جس نوعیت کے اختلافات نئے صوبوں کے مسئلے پر انصاری کمیشن میں پیدا ہو گئے تھے۔ نئے صوبوں کی بحث جنرل ضیاء الحق نے شروع کرائی تھی کیونکہ وہ سندھ میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) سے سخت نالاں تھے۔ انہوں نے 1983ء میں مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جس کا مقصد نظام حکومت میں اصلاحات کیلئے سفارشات تیار کرنا تھا۔ یہ کمیشن کئی دن تک نئے صوبوں کی تجویز پر بحث کرتا رہا لیکن اس کمیشن کے 22 ارکان میں نئے صوبوں کے قیام پر اتفاق نہ ہو سکا اور آخر کار انصاری کمیشن کی رپورٹ میں نئے صوبوں کا معاملہ جنرل ضیاء الحق پر چھوڑ دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق سندھ میں پیپلز پارٹی کو کمزور کرنےکیلئے سندھ میں نئے صوبے بنانا چاہتے تھے لیکن جب پنجاب میں سرائیکی صوبے، خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبے اور بلوچستان میں جنوبی پشتونخوا صوبے کے مطالبے نے زور پکڑا تو جنرل ضیاء الحق پیچھے ہٹ گئے۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد نئے صوبوں کی بحث دوبارہ شروع ہو گئی۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اٹھارہویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا کیونکہ اس ترمیم نے صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ صوبوں کے فنڈز میں اضافہ ہو گیا لیکن صوبوں نے اختیارات اور فنڈز کو بلدیاتی اداروں کو منتقل نہ کر کے اٹھارہویں ترمیم کے اصل مقاصد کی خلاف ورزی کی۔ باجوہ صاحب کا مسئلہ یہ تھا کہ وفاق کے پاس فنڈز کم پڑ گئے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کیلئے کچھ ماہرین سے انہوں نے ایکشن پلان بھی بنوائے۔سب سے اچھا پلان مفتاح اسماعیل نے بنا کر دیا اٹھارہویں ترمیم کے رول بیک کیلئے پارلیمانی نظام کا خاتمہ ضروری تھا۔ پارلیمانی نظام کو رول بیک کرنے سے قبل ہی باجوہ صاحب کے اپنے ہی لائے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات پیدا ہو گئے۔
عمران خان اپنے ساتھ ساتھ باجوہ کو بھی لپیٹ کر لے گئے۔ جب بھی پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے بھارت کا حوالہ دیا جاتا ہے جہاں 28ریاستیں اور آٹھ یونین ٹیریٹریز ہیں جن میں دہلی، جموں و کشمیر اور لداخ بھی شامل ہیں جو براہ راست وفاق کے زیر انتظام ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر بھارت کی انتظامی اکائیاں 14 سے 36 ہو سکتی ہیں تو پاکستان کے انتظامی صوبوں کی تعداد چار یا چھ سے 12 کیوں نہیں ہو سکتی؟ نئے صوبوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان کی آبادی کم ہو جائے گی اور ان کا انتظام چلانا آسان ہو جائے گا۔ مجھے ذاتی طور پر کسی کی نیت پر شک نہیں اور نئے صوبوں کی تجویز کا مقصد بھی پاکستان کو بہتر بنانا نظر آتا ہے لیکن اس معاملے میں بھارت کی مثال دینا قطعی غلط ہے۔ بھارت میں نئے صوبوں یا ریاستوں کے قیام کیلئے 1953ء میں ایک کمیشن بنایا گیا جس نے 1955ء میں ایک رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کی روشنی میں 1956ء میں ایک ایکٹ بنایا گیا اور آہستہ آہستہ نئے انتظامی یونٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔جس زمانے میں بھارت نے یہ ایکٹ بنایا اُس زمانے میں پاکستان کے حکمرانوں نے صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنا دیاتھا۔ مقصد کیا تھا؟ بنگالی اکثریت کو مغربی پاکستان کی اقلیت کے برابر لانا۔ ون یونٹ نے جن نفرتوں کو جنم دیا اُس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ 1970ء میں ون یونٹ ختم کر کے صوبے بحال کئے گئے۔ نہ تو ون یونٹ بنانے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا اور نہ ہی صوبوں کو کسی بحث مباحثے کے بعد بحال کیا گیا۔ صوبوں کی بحالی کے فوری بعد ایک صوبہ علیحدہ ملک بن گیا۔ اب ہم چار صوبوں کے بارہ صوبے بنانا چاہتے ہیں اور بھارت کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نئے صوبوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ آئین پاکستان کی دفعہ 239 کی ذیلی شق چار ہے جس کے تحت صوبہ بنانے کیلئے متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔ کیا سندھ یا خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی ایسی قرارداد منظور کر دے گی؟ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی شاید نئے صوبوں کی حمایت کر دے لیکن پھر موصوف کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نئے صوبوں کی بحث میں اس پہلو کو نظر انداز نہ کریں کہ پاکستان کا لفظ پنجاب کے ’’پ‘‘، افغانیہ کے’’الف‘‘، کشمیر کے’’ک‘‘، سندھ کے’’س‘‘، اور بلوچستان کے’’تان‘‘سے مل کر بنا ہے۔نئے صوبوں کی تشکیل میں ان الفاظ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنانے کی بجائے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی اگر کسی نے زور زبردستی سےنئے صوبے ضرور بنانے ہیں تو آٹھ نئے وزرائے اعلیٰ، آٹھ نئے گورنروں آٹھ نئی اسمبلیوں اور آٹھ نئے ہائی کورٹس سمیت دیگر انتظامات کا خرچہ کہاں سے آئے گا؟ کافی مشکل کام ہے۔ شاید اسی لئے رانا ثناء اللہ نے نئے صوبوں کی بحث کو ایک شوشَہ قرار دے کر اسکی تمام ذمہ داری میڈیا پر ڈال دی۔ رانا صاحب تسی گریٹ او۔