پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین گہرے سماجی ثقافتی اور دینی تعلقات کی بنیادیں موجود ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دو ایسے حقیقی بھائیوں کی مانند ہیں جنہیں زمانے کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتدالیوں نے ایک دوسرے سے دور کر دیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دو بھائیوں کے مشترکہ گھروں میں اگر دیواریں بھی کھڑی کر دی جائیں پھر بھی خون کے رشتے ہی نفرت پر غالب آتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین بھی یہی ہوا۔بر صغیر کو غلامی سے نجات دلانے کیلئے بنگالی مسلمانوں نے نمایاں اور قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کے گھر میں رکھی گئی۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں بنگال سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور عوام نے وہ کردار ادا کیا جو آج برصغیر کی تاریخ کا حصہ ہے۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے کا شرف بنگال سے تعلق رکھنے والے شیر بنگال مولوی فضل الحق کو حاصل ہوا جن کی گرجدار آواز نے منٹو پارک سے لیکر بر صغیر کے دوسرے کونے تک ایک ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔
بنگال کے دوسرے بڑے رہنما خواجہ ناظم الدین تھے انہیں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں اپنی بردباری سنجیدگی اور متانت سے بھرپور کردار ادا کیا۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بڑے وقار کیساتھ پاکستان کی قیادت کی۔ جناب حسین شہید سہروردی تحریک پاکستان کے ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی پرجوش تقریروں سے تحریک پاکستان کے جذبے کو مہمیز دی۔ اس تاریخ کو مزید کھنگالا جائے تو کئی ایسے نامور لوگ کے نام ملیں گے جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتیں قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے صرف کیں۔ لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت جس نے پاکستان کا وجود تسلیم ہی نہیں کیا تھا اس نے پاکستان کے خلاف سازشوں کی بنیاد رکھی۔ کچھ اپنوں نے سہولت کاری کی،شیخ مجیب الرحمن نے رائی کا پہاڑ بنایا اور پھر ایک ایسا ماحول بنا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ کا دل خراش سانحہ پیش آیا۔ بنگالی قوم نے 15 اگست 1975ءکو شیخ مجیب اور اس کے خاندان کو اپنے انجام تک پہنچا کر علیحدگی کا کچھ ازالہ تو کر دیا لیکن زخم مندمل نہ ہو سکے۔پاک بنگلہ دیش تعلقات مختلف اوقات میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے،لیکن شیخ حسینہ واجد کے دور کو اس حوالے سے سیاہ ترین دور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی تمام تر اسلام اورپاکستان دشمنی کے باوجود بنگالی عوام کے دلوں میں آج بھی اسلام اور پاکستان کی محبت موجود ہے۔اس فاشسٹ حکومت کے خاتمہ کے بعد آج ایک نیا بنگلہ دیش وجود میں آچکا ہے جو ملک پہلے بھارت کی پراکسی ہوا کرتا تھا آج وہ اپنے آزادانہ فیصلے کر رہا ہے۔جس ملک کی اسٹاک ایکسچینج کے تانے بانے کلکتہ اور دہلی سے ملتے تھے وہ کراچی اور اسلام آباد کے ساتھ جڑ چکا ہے۔ جس ملک کی فضائیں پاکستانی طیاروں کیلئے بند تھیں آج وہاں پاکستانی پرچم بردار طیارے محو پرواز ہیں۔جس کے سمندر پاکستان کیلئے شجر ممنوعہ تھے آج وہاں پاکستانی مال بردار جہاز لنگر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں پاکستانی سفیر کے تقرر میں ہی چھ ماہ لگ جاتے تھے آج وہاں پر پاکستانی سفارت کار اور حکومتی اہلکاروں کے وفود کا تانتا بندھ چکا ہے۔جہاں پاکستان کا نام لینا جرم سمجھا جاتا تھا آج وہاں کےا سٹیڈیم پاکستان زندہ باد نعروں سے گونج رہے ہیں۔ جہاں قائدا عظم محمد علی جناح پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے تھے آج اس ملک میں قائد اعظم محمد علی جناح کےیوم پیدائش اور یوم وفات منائے جا رہے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے چیف ایگزیکٹو نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے مابین کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار نے گزشتہ برسوں اکتوبر میں غیر جانبدار ممالک کی سربراہان کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیشی مشیر خارجہ توحید حسین سے ملاقات کی تھی۔اسکے بعد مارچ 2025 ءمیں جدہ میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی اور اب وہ 23اگست 2025 ءکو بنگلہ دیش کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنے ہم منصب کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری ملاقاتیں کر رہے ہیں۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ اس سے پہلے ہی بنگلہ دیش کا دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان ان دنوں بنگلہ دیش میں موجود ہیں ان کی ملاقاتوں کے دوران بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات پورا کرنے کیلئے پاکستانی کوئلے اور چونے کے پتھر کی تجارت پر بات ہو رہی ہے۔ٹیکسٹائل کی تجارت کے مواقع، معدنیات کی برآمدات،سندھ سے اعلیٰ معیار کا چونا پتھر، توانائی، لاجسٹکس،فوڈ سیکورٹی اور اقتصادی شراکت داری کے مختلف منصوبوں پر بامعنی اور اعلیٰ سطحی بات چیت ہو رہی ہے۔
بنگلہ دیش جہاں پر پاکستانی ویزوں پر پابندی عائد تھی وہاں پر ویزوں کے عمل کو ہموار بنانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی بنگلہ دیش کا دورہ کر چکے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ستمبر 2025ء تک سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کیلئے ویزا فری ملک قرار دینے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے وفد نے بھی 24اپریل سے لیکر 27 اپریل 2025ءتک پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ طویل عرصے کے بعد دفاعی رابطے بھی بحال ہوئے ہیں۔ رواں برس جنوری میں بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل اسٹاف افیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے راولپنڈی میں ملاقات کی اس میں مختلف دفاعی امور پر گفتگو کی گئی۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس یقین کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی عالمی سیاست میں پاکستان بنگلہ دیش اور چین ایک بلاک کی صورت میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔