سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں اس شہر کراچی کی تنہائی کی کہانی۔ اس معاشی حب میں ’موسیمیاتی تبدیلی‘ تو 1950ء کی دہائی میں ہی آنی شروع ہوگئی تھی جب 1952ء کےکراچی ماسٹر پلان کو الماری میں بند کردیا گیا کیونکہ وفاقی دارالحکومت تو کہیں اور بنانا تھا۔ آنے والے وقت میں اُس پورے نقشے کو ہی تبدیل کردیا گیا۔ کراچی کی گمشدہ فائلوں پر نظر ڈالتاہوں تو حیران رہ جاتاہوں کہ انگریز تو ایک بہتر شہر چھوڑ کر گیا تھا جہاں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے نالے اتنے وسیع تھے کہ آپ اپنی گاڑی بھی پارک کرسکتے تھے۔ ٹرانسپورٹ کا پورا نظام تھا سرکلر ریلوے سے لے کر ٹرام اور بڑی بسوں تک وہ بھی انتہائی کشادہ سڑکوں پر۔ ناظم آباد کے ڈی اسکیم نمبر۔1، مزارِ قائد کے اردگرد کے علاقے سب سے منظم تھے جہاں بلند و بالا عمارتوں کا تصور نہیں تھا۔ ایسا ہی شہر آباد کرنا تھا۔ انڈسٹریل زون اور کمرشل ایریا کیسے بنانے ہیں سب طے تھا۔ کلفٹن سے آگے سمندر ہی سمندر جس کو اب ہم نے اتنا پیچھے کردیا ہے کہ سی ویو میں سے ’سی (SEA) نکلتا جارہا ہے صرف ’ویو‘ رہ گیا ہے۔ ورنہ تو پلان میں ’بوٹ بیسن‘ کا نام ہی اِس وجہ سے پڑا تھا کہ یہاں ’’بوٹ‘‘ چلتی تھی۔ اسی لئے میں نے منیر نیازی سے معذرت کرنی ہے۔ جنہوں نے کہا تھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب تو بارش آتی ہے تو مجھے نہ سی ویو جانے کی ضرورت نہ ہاکس بے بس گھر کا دروازہ کھلا اور دریا آپ کے سامنے۔ کئی گلی محلوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ یاد آتا ہے وہ وقت جب ایسے موسم میں بیسن کی روٹی، لہسن کی چٹنی اور پکوڑے بناکر بلا خوف سمندر کنارے نکل جاتے تھے اب ایسا موسم اک انجانا سا خوف ساتھ لاتا ہے بارش میں پھنسنے سے زیادہ لٹ جانے کا خوف موبائل فون ہو یا پرس، بچے اسکول گئے ہوں تو والدین کی تسلی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اُن کے پیارے گھر واپس نہ آجائیں۔
78سال میں کراچی کا کوئی تو منصوبہ ایسا بتائیں جو وقت پر تو درکنار اپنی اصل شکل میں مکمل ہوا ہو، شہر تباہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔حد تو یہ ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ حکومت کرنے والی پی پی پی خود اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ’وژن کراچی‘ کے منصوبہ کو بھی نہ بنا سکی جسکی ایک شکل ہمیں آج کے دبئی میں نظر آتی ہے۔ کچھ پُرانے بیوروکریٹس سے بات کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کی دو بڑی سڑکیں شاہراہ فیصل اور بندر روڈ جن کو کراچی کی لائف لائن بھی کہا جاتا تھا۔ اُسی ویژن کا حصہ تھیں کراچی پورٹ کے علاوہ۔ یہ سب اِس وجہ سے بھی تھا کہ شہر اِس بے ڈھنگے انداز میں اُس وقت پھیلنا شروع نہیں ہوا تھا۔
آنے والے وقتوں میں ’کراچی ماسٹر پلان‘ کے ساتھ ہر آنے والے حکمران نے وہی کیا جو غیر قانونی طریقوں سے اسپتالوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں بلند و بالا پلازہ بنانےوالے کرتے ہیں۔ گمشدہ فائلوںپر نظر ڈالتاہوں تو حیرت ہوتی ہے جس طرح گلستانِ جوہر آباد کیا گیا۔ اب تو خیر ’فائلیں‘ ہی یا تو غائب کردی گئیں یا ہر حکومت اپنی مرضی سے ’ماسٹر پلان‘ میں تبدیلی کر کے’کراچی تباہی پلان‘ پر کار فرما ہے، ’گریٹر کراچی‘ منصوبے سے لیکر کراچی ماس ٹرانزٹ، لیاری ایکسپریس وے، کےفور، سیف سٹی پروجیکٹ تک کچھ تو بنے بھی نہیں یا اتنی لاگت بڑھ گئی کہ ’اگرمگر‘ کا شکار ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاخیر پر معذرت کرنے کے بجائے ’تختی‘ لگا کر کریڈٹ بھی لیا جاتا ہے۔
یہ ایک بہت ہی منظم مافیا ہے۔ پہلے ’سیاست‘ کو ’جرم‘ قرار دیا گیا پھر ’جرم ہی سیاست‘ بنادیاگیااور کراچی اِس کا خاص شکار ہوا۔ زیادہ پُرانی بات نہیں اگر آپ صرف 150۔ صفحات پر مشتمل یا شاید اس سے زیادہ صفحات پر مبنی ’کراچی بدامنی کیس‘ کا فیصلہ تفصیل اور تحمل سے پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ 1958ء سے آج تک یہ شہر ’معاشی حب‘ بننے کے بجائے ہر طرح کے دہشت گردوں ، ڈرگ مافیا، انڈرورلڈ کے حوالے کردیا گیا۔اِس ’مافیا‘ میں کچھ سیاسی جماعتیں، گروپس، بلدیاتی ادارے ، بشمول واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول، بورڈ آف رینیو وغیرہ ،وغیرہ مبینہ طور پر کہیں نہ کہیں کرپشن اور نا اہلی کا شکار نظر آئیں گے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ آخر پورے صوبے میں صرف کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رکھا گیا جسکی وجہ سے آج کراچی میں خوش آمدیداور خداحافظ کے بورڈ نظر نہیں آتے۔ ’جرم اور سیاست‘ کے اِس ملاپ نے ایک طرف اِس ’معاشی حب‘کو تباہ کیا دوسرے یہاں کی سیاست کو ،علاقے کے بدمعاش پہلے بھی ہوتے تھے مگر وہ اپنے علاقے یا محلے کا خیال ضرور کرتے تھے خاص طور پر خواتین اور بچوں کا۔
’کراچی لاوارث‘ کی اصطلاح بھی عجیب ہے اصل میں وارث بہت ہیں بس جھگڑا رہتا ہے وراثت کا اور آپ کو تو پتا ہے ایسے تنازعات میں کیا کیانہیں ہوتا۔ خُدارا، یہ صوبہ اِس کا ہر شہر ہمارا ہے وہ جو یہاں پیدا ہوئے جنہیں اِس زمین کی خوشبو سے پیار ہے۔ کل بھی مسئلہ زیادہ صوبوںکانہیں تھابلکہ زیادہ سے زیادہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا ہے جو اِس کے خلاف ہے وہ دراصل ملک میں نہ اصلی سیاست کا خواہاں ہے نہ ہی جمہوریت کا۔ کیونکہ اگر آپ نرسری ہی تباہ کردوگے تو بچہ آگے کیسے آئے گا سیاست کیسے سمجھے گا۔ 18ویں ترمیم کے شادیانے سب نے بجائے سب سے زیادہ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) نے مگر کوئی بھی اِس کی اصل شق پر عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں ورنہ آج زیادہ تر بڑے بڑے سیاستدان میئر، ٹاؤن ناظم اور کونسلر کا الیکشن لڑرہے ہوتے۔ لہٰذا اِس پر عمل نہ کرکے دراصل آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
ہمارے ایم کیو ایم کے دوستوں کے پاس یقین جانیں اس شہر کو ایک ’میگا سٹی‘ بنانے کا سنہری موقع تھا۔ کاش ایک ’ٹیلی فون‘کال کراچی کو پیرس یا لندن بنانے کی کردی جاتی۔ کال بھی کی تو شہر کو بند کرنے کی۔ صرف دکھ ہوتا ہے کہ جو جو وراثت کے دعوے دار تھے وہ آج امریکہ ، لندن، دُبئی اور جانےکہاں کہاں موجود ہیں جو بچے ہیں ان میں سے بھی کئی کے پاس دہری شہریت ہے بس کیا کہوں ما سوائے اس کے۔
خوب چھلنی ہوئے سینے، سپروں کے ہوتے
کراچی جو سب کا تھا تباہ ہوا، کیا جناح اور کیا جی ایم سیّد۔ ایک نے ملک بنایا اور دوسرے نے سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔ کہتے ہیں ناں کہ انقلاب لانا آسان ہوتا ہے اسے سنبھالنا مشکل۔ ملک بچا نہیں پائے نئے صوبے بنانے کی بحث چھیڑ دی ۔ نچلی سطح تک اختیارات، صوبائی حکومتوں کی عدم مداخلت، اور مضبوط بلدیاتی نظام یہی مسائل کاحل ہے۔ ابھی میں کالم ختم ہی کررہا تھا کہ بجلی چلی گئی ،واٹر ٹینکر کا انتظار ہے آسمان پر بادل اور خوف ہے کہ بارش تیز آئی تو گھر کے باہر ، اک اور دریا کا سامنا ہوگا۔ ’اِس کو کہتے ہیں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ‘۔