درویش کی نانی ماں عائشہ بیمار اور کہنہ سال تھیں۔ گھر والوں کو انکے بچنے کی زیادہ امید نہیں تھی، لیکن بزرگانہ شفقت و محبت سے اپنی کئی محرومیوں کے باعث درویش کی یہ آرزو تھی کہ وہ کسی بھی طرح ’’بچ‘‘ جائیں اور نہ صرف یہ کہ پہلے کی طرح چلتی پھرتی نظر آئیں، بلکہ ویسے ہی میری بلائیں لیں۔ سو میں بھاگم بھاگ حکیم صدیق صاحب کو بلا لایا کہ ہماری دیہی زندگی میں وہی سب سے بڑے حاذق، بلکہ اسپیشلسٹ معالج تھے۔ حکیم صاحب نے تھوڑی دیر میں پوری تشخیص کرتے ہوئے جو دوائیاں تجویز کیں، ان میں سے کچھ بے ذائقہ تھیں تو کچھ بدذائقہ، اپنی پیاری نانی کی چاہت میں بدذائقہ دوائیاں بری مجھے بھی لگیں، لیکن میں انکی زندگی بچانے کیلئے بے چین تھا، اسلئے گھر والوں کی ناراضی اور نانی کی جھڑکیوں کے باوجود انہیں دوائیں کھلانے پلانے لگا۔ حکیم صاحب نے کچھ ”پرہیز“ بھی بتلایا تھا۔ ان میں سے ایک صندل کے ٹھنڈے میٹھے شربت کا امتناع بھی تھا، جو میری نانی کو بہت مرغوب تھا۔ درویش کی التجا کے باوجود حکیم صاحب نے حکم سنا دیا کہ اگر یہ شربت پلاؤ گے تو ماں جی کو رعشہ ہو جائیگا۔ گرمی شدید تھی گاؤں میں بجلی نامی کوئی سہولت نہ تھی، چند ہی روز بعد نانی جی نے اصرار کیا کہ مجھے شربت پلاو۔ ناچیز نے طریقے بہانے سے انکا مطالبہ ٹال دیا، میں چونکہ انکا سب سے زیادہ لاڈلا تھا، اسلئے وہ میری بات بالعموم مان لیتی تھیں، لیکن اس کےباوجود انکی دلی خواہش تھی کہ انہیں یہ شربت کچھ پلا ہی دیا جائے۔ چند روز بعد ان کی بیٹی اور میری خالہ سے نہ رہا گیا تو انہوں نے شربت بنایا اور جھٹ سے انہیں پلا دیا۔ دوبارہ اور سہ بارہ مانگا تو پھر پلا دیا، ساتھ ہی مجھ سے خفگی کا اظہار کیا کہ پتر کیوں میری ماں کو ستا رہے ہو۔ اس پر میری نانی جومجھ سے تو قدرے نالاں تھیں، البتہ اپنی بیٹی کے صدقےواری ہو رہی تھیں، چند ہی روز گزرے تھے کہ انہیں وہ تکالیف شروع ہو گئیں، جنکی پیشگی نشاندہی حکیم صاحب نے کی تھی۔ آج سے برسوں قبل کی یہ ہڈبیتی ہے اور درویش آج بھی یہ سوچتا ہے کہ اپنی مہربان نانی کو خفا کر کے کیا میں نے برا کیا تھا؟ اور کیا میری خالہ نے انہیں خوش کر کے اچھا کیا تھا؟ ان سے میری بوجوہ شدید وابستگی مجھے مجبور کر رہی تھی کہ وقتی ناراضی برداشت کر لوں، لیکن کسی طرح انہیں بچا لوں۔ میری معصومیت انکی خفگی کے باوجود ان کی حیات نو تلاش کر رہی تھی، جبکہ محترمہ خالہ جان تجربہ کار اور زیادہ سمجھ دار تھیں، وہ انہیں بہرحال خوش دیکھنا چاہتی تھیں، اندرخانے شاید وہ ان کی زندگی سے مایوس تھیں۔ آج کی دنیا میں موجود ”مسلم امہ“ میرے لئے ماں اور نانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ”امہ“ کی موجودہ حالت پر بہت سے لوگ فکر مند و پریشان ہیں۔ ہمارے محترم شامی صاحب جیسے سمجھ دار، اُمہ کی خوشی وخوشنودی کیلئے ایسی تحریریں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں، جن سے واقعی انہیں اُمہ کی طرف سے داد ملتی ہے۔ اسکے برعکس درویش جیسے”احمق“ ہیں جو حکیم صدیق کے بتلائے ہوئے نسخوں اور ”پرہیزوں“ پر عملدرآمدنہ کرنے پرپریشان رہتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں، لیکن شاید ہم ”بیوقوف“ اس پیرانہ سالی میں اس ماں کی حیات نو کے متلاشی ہیں۔ بلاشبہ اُمہ سے محبت دونوں طبقوں کو ہے۔ جس طرح درویش آج بھی برسوں قبل کے واقعہ کو یاد کر تے ہوئے پریشان ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنی نانی کو کیوں خفا کیا؟ اسی طرح مجھے دکھ ہے کہ میں باوجود خواہش اور آرزو کے، مسلم اُمہ کی خوشنودی کیلئے پہلے طبقے کا ساتھ نہیں دے پا رہا،حالانکہ میرا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا اسی طبقے کے ساتھ ہے، لیکن شاید میں اپنی فطرت و جبلت سے مجبور ہوں، بالفعل میں حکیم صدیق کے نسخوں اور پرہیزوں سے باہر نکل ہی نہیں پارہا۔ لاکھ انکار کروں، لیکن اپنی ”دیہی زندگی“ میں ڈاکٹر طہ حسین اور سرسید ؒ جیسے کھرے ہی مجھے اُمہ کیلئے عصر حاضر کے حاذق حکیم صدیق اور طبیب نظر آتے ہیں، ان کی بتلائی ہوئی دواؤں اور پرہیزوں میں ہی مجھے اُمہ کیلئے شفاء محسوس ہوتی ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر سر سید جیسے انسان کی تعلیمی خدمات نہ ہوتیں تو اپنے مجرب نسخوں اور پرہیزی پالیسوں کے باعث وہ آج کے سب سے غیر مقبول حکیم صدیق کہلواتے۔ اس تلخ نوائی میں کوئی اشتباہ نہیں کہ ہمارے تعلی و تقاریر ساز ”محبان ملت“ کیلئے، وہ یا انکے کڑوے کسیلے نسخے، آج بھی ناگواری طبع کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے اقبال کو بھی انکی شاعری کا ٹھنڈا میٹھا صندل کا شربت غیر مقبول حکیم کہلوانے سے بچا گیا، کیونکہ شاعری تو نام ہی مبالغہ آرائی اور مدح سرائی کا ہے، ورنہ بات اگر ان کے اصل نسخے (Reconstruction of Religious Thought in Islam) کی ہوتی تو حکیم الامت آج امہ کی نظروں میں ایک غیر مقبول حکیم صدیق ہوتے۔ افراد اور اقوام کی زندگیوں میں بہت سی مشابہت کے باوجود ایک جوہری فرق یہ ہے کہ افراد کے بانجھ پن کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ اقوام و ملل کا معاملہ نسل در نسل چلتا ہے اور آنے والی نئی نسلوں کا تازہ خون اگر فکر جدید بنکر دقیانوسی روایات کے خلاف جوش مارنے لگے تو اقوام و ملل کو نئی زندگی مل جایا کرتی ہے اور ان کا بانجھ پن ختم بھی ہو سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے بعد اتاترک کی قیادت میں جدید ترکی اسکی بہترین مثال ہے، جسے حکیم الامت نے اپنے ”نسخہ حکمت و دانش“ میں بار بار بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ اس پر آئندہ بات ہو گی۔