یہ قدرت نہیں، ایک فیصلہ تھا۔اگست 2025ء میں پنجاب نے وہ تباہ کن سیلاب دیکھا جو دہائیوں سے نہیں آیا تھا۔ مغربی پنجاب کے لاہور کے مضافات، قصور، اوکاڑہ، بہاولنگر اور بہاولپور ڈوب گئے۔مشرقی پنجاب کے مالوا اور دوآبہ بھی برباد ہو گئے۔سب سے چونکا دینے والا منظر یہ تھا کہ کرتار پور صاحب’سکھ مذہب کے سب سے مقدس مقامات میں سے ایک‘ پانی میں ڈوب گیا۔تصویریں دل دہلا دینے والی تھیںکسان ڈوبی ہوئی باڑ کے اُس پار ایک دوسرے کو ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ جنوبی ایشیا کی سب سے سخت سیکورٹی والی سرحد ایک ہی رات میں غائب ہو گئی۔ پہلی بار دونوں طرف کے پنجابی ایک ساتھ متاثر ہوئے۔
یہ سیلاب خدا کا قہر نہیں تھا۔ یہ مودی حکومت کی جان بوجھ کر کی گئی ڈیم مینجمنٹ کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ پانی ،جو مقدس سمجھا جاتا ہے، کو ہتھیار بنا دیا گیا۔
جرم کی ٹائم لائن:23اپریل 2025ء کوبھارت نے سندھ طاس معاہدہ (IWT) کو معطل کر دیا۔۔۔ ایک معاہدہ جس نے تین جنگیں جھیلی تھیں۔5مئی: سلال ڈیم کے گیٹ بند کر دیئے گئے، اکھنور پر چناب ندی میں بدل گئی۔8مئی: بگلیہار نے بے قاعدہ پانی چھوڑا، نیچے افراتفری پھیل گئی۔جون: سلال اور بگلیہار دونوں نے بارشوں کے دوران غیر یقینی بہاؤ پیدا کیا۔
26 اگست:تھین (رنّجیت ساگر) ڈیم، جو گرمیوں بھر بھرا رہا، اپنے تمام گیٹ کھول دیے۔27 اور 29اگست: مادھوپور بیراج اچانک آئے طوفانی بہاؤ سے ٹوٹ گیا۔ راوی، چناب اور ستلج ایک ساتھ بپھر گئے۔دہلی نے دعویٰ کیا کہ یہ’’انسانی ہمدردی‘‘ تھی۔ اکانومک ٹائمز نے تو یہ بھی لکھا: بھارت کی وارننگ سے ڈیڑھ لاکھ زندگیاں بچیں۔لیکن رائٹرز اور اے پی نے سچ دکھایاڈیڑھ لاکھ لوگوں کو نکالا گیا۔ لوگوں کا انخلا بچاؤ نہیں ہے یہ ناکامی کا ثبوت ہے۔
یہ سیلاب انسانوں کے بنائے ہوئے کیوں تھے؟ ڈیم ہمیشہ فلڈ کشن کیساتھ بنائے جاتے ہیں۔ مئی اور جون میں ذخائر کو خالی کیا جاتا ہے تاکہ جولائی اگست کے بہاؤ کو سنبھالا جا سکے۔2025ءمیں بھارت نے اُلٹا کیا۔ سلال بند رہا، بگلیہار کا بہاؤ بار بار بدلا گیا، تھین مکمل طور پر بھر دیا گیا۔ اگست تک کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔جب مون سون عروج پر پہنچا تو واحد راستہ تھا:پانی انڈیل دینا۔نتیجہ طے شدہ تھا — کرتارپور صاحب ڈوبا، مشرقی پنجاب کا اناج گھر برباد ہوا، مغربی پنجاب کی کپاس کی پٹی اجڑ گئی۔
یہ غفلت نہیں تھی۔ یہ انتقام تھا۔
معاہدے کی خلاف ورزیاں: 1960 میں ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ نہروں کو تقسیم کرتا ہے مگر تعاون کو لازم قرار دیتا ہے۔
2025 ء میں بھارت نے اس کی بنیاد ہی توڑ دی: آرٹیکل VI: ڈیٹا کا تبادلہ بند۔آرٹیکل VII: تعاون ختم۔آرٹیکل VIII: مستقل کمیشن کو نظرانداز کیا گیا؛ وارننگ انجینئروں کو نہیں بلکہ سفارت کاروں کے ذریعے بھیجی گئی۔1965ء، 1971ء اور کارگل کی جنگوں میں بھی کمیشن چلتا رہا۔ صرف 2025 ءمیں اسے خاموش کرا دیا گیا۔ اور اسی خاموشی میں پنجاب ڈوب گیا۔
مٹی ہوئی سرحد:دہائیوں تک پنجاب کی انڈوپاک سرحد دنیا کی سب سے سخت سیکورٹی والی سرحد رہی ہے۔ فلڈ لائٹس، باڑ اور چوکیوں نے اسے تقسیم کی علامت بنایا ہوا تھا۔مگر اگست 2025ء میں سیلاب نے اُسے مٹا دیا۔کسانوں نے ڈوبی ہوئی باڑ کے اُس پار دیکھا اور سمجھا کہ اُن کا درد مشترک ہے۔ سکھ، مسلمان، ہندو — مشرقی اور مغربی پنجاب کے لوگ یکساں طور پر متاثر ہوئے۔یہ دہلی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ندیوں کو ہتھیار بنا کر اُس نے نادانستہ طور پر پنجاب کو ایک کر دیا۔
نقصان ناقابلِ شمار ہیں۔کپاس، دھان اور گندم کی فصلیں دونوں پنجابوں میں تباہ۔انفراسٹرکچر: سڑکیں، پل، بند اور مادھوپور بیراج ٹوٹ گئے۔ بے گھر ہونا،ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔کرتارپور صاحب ڈوبا — جس کا زخم ناقابلِ قیمت ہے۔
محفوظ اندازے کے مطابق نقصان 5ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ عالمی ثالثی کی مثالوں سے میل کھاتا ہے (جیسے ریکو ڈک کیس میں پاکستان پر 6 ارب ڈالر جرمانہ ہوا تھا)۔چھ دہائیوں تک IWT کو ناقابلِ شکست سمجھا جاتا رہا — تعاون کی ایک انوکھی مثال۔ 2025ءمیں مودی نے اُسے توڑ دیا۔اس سے دنیا کو پیغام گیا: پانی بھی ہتھیار بن سکتا ہے۔اگر بھارت کر سکتا ہے تو پھر ایتھوپیا دریائے نیل پر، ترکی دجلہ و فرات پر، یا چین دریائے میکونگ پر کیوں نہیں؟جنوبی ایشیا کیلئے یہ وجودی خطرہ ہے۔ 25کروڑ لوگ سندھ طاس نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر یہ ندیاں ہتھیار بن گئیں تو جنگ ناگزیر ہے۔ اور یہ ایک ایٹمی خطہ ہے۔
بین الاقوامی قانون واضح ہےکہ نو-ہرم اصول: بالادست ریاست نیچے والوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔منصفانہ استعمال کا اصول:مشترکہ ندیوں کا استعمال سب کیلئے منصفانہ ہونا چاہئے۔جنیوا کنونشن: شہری بقا کیلئے ضروری وسائل (جیسے پانی) کو نشانہ بنانا ممنوع ہے۔بھارت نے تینوں کی خلاف ورزی کی۔یہ بدانتظامی نہیں تھی۔ یہ جرم تھا۔
اختتامیہ:تاریخ گواہ بنے گی کہ اگست 2025 میں پانی نے وہ کر دکھایا جو کوئی بم، کوئی جنگ، کوئی میزائل نہ کر سکا:اُس نے انڈوپاک سرحد مٹا دی۔ سلال نے پانی روکا، بگلیہار نے بہاؤ بدلا، تھین بھرا رہا، مادھوپور ٹوٹ گیا۔ کرتارپور صاحب ڈوب گیا۔یہ قدرت کا قہر نہیں تھا — یہ مودی کا انتقام تھا۔ پنجاب ایک ساتھ پیڑھا — مشرقی اور مغربی دونوں۔ سرحدیں مٹ گئیں۔ یادیں اِسے کبھی نہیں بھولیں گی۔
تاریخ لکھے گی کہ 2025ءوہ سال تھا جب غرور نے برصغیر کے دل کو ڈبو دیا۔