دنیا کی تاریخ اور خاص طور پر پاکستان کے پڑوسی ممالک کی مثالیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ جب کسی ریاست نے اپنی انتظامی اکائیوں کو بڑھایا یا صوبوں کی نئی تقسیم کی تو اسکا مقصد عوام کو سہولت دینا اور ترقی کے عمل کو تیز کرنا رہا۔ بھارت، ایران، چین، بنگلہ دیش اور جاپان نے وقت کے ساتھ اپنے صوبوں یا ڈویژنز کی تعداد میں اضافہ کیا تاکہ نظام زیادہ مربوط ہو اور عوامی مسائل براہِ راست حل ہوں۔ یہ اقدام عوامی خوشحالی اور قومی اتحاد کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ چار بڑے صوبوں کے موجودہ ڈھانچے کیساتھ ملک کو زیادہ دیر تک کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں رکھا جا سکتا۔ صوبے وسعت اور آبادی کے اعتبار سے اتنے بڑے ہیں کہ ان کا انتظام ایک ہی مرکز سے چلانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسائل کی تقسیم غیر متوازن اور عوامی مسائل حل کرنے کی رفتار سست ہے۔ چھوٹے صوبوں اور نئی اکائیوں کی تشکیل ہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان اپنے عوام کو سہولت، انصاف اور ترقی فراہم کر سکتا ہے۔ بھارت نے آزادی کے وقت 17صوبے اور سینکڑوں ریاستیں ورثے میں پائیں۔ بعد ازاں ریاستی تنظیم نو کے عمل کے ذریعے لسانی اور انتظامی بنیادوں پر نئی ریاستیں تشکیل دی گئیں۔ آج وہاں 28ریاستیں اور 8یونین ٹیریٹریز ہیں اور یہی تقسیم بھارت کیلئے متوازن ترقی اور بہتر حکمرانی کا ذریعہ بنی۔ایران میں 1937ء میں صرف 10صوبے تھے لیکن آج یہ تعداد 31ہے۔ ایران نے یہ اضافہ اسلئے کیا کہ عوامی سہولت مقامی سطح پر ممکن ہو اور ترقی میں سب علاقے برابر شریک ہوں۔ چین جب 1949ء میں عوامی جمہوریہ بنا تو وہاں تقریباً 18صوبے تھے۔ آج وہاں 23صوبے، 5خودمختار علاقے، 4میونسپل شہر اور 2خصوصی انتظامی علاقے ہیں۔ یہی تقسیم چین کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر لے گئی۔بنگلہ دیش جب 1971 ء میں آزاد ہوا تو محض 4ڈویژنز تھیں، آج انکی تعداد 8 ہو چکی ہے۔ اس اضافے نے مسائل کو زیادہ قریب سے حل کرنے اور ترقی کو متوازن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جاپان رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان سے چھوٹا ملک ہے لیکن وہاں 47پریفیکچرز ہیں۔ یہی تقسیم جاپان کو دنیا کی بہترین انتظامی صلاحیت اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے آئی۔
یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی اس بات سے جڑی ہے کہ وہاں صوبے یا انتظامی اکائیاں عوام کے کتنے قریب اور مؤثر ہیں۔ پاکستان کیلئےبھی یہی راستہ ہے۔ اگر ہم صوبوں کی تعداد میں اضافہ کریں توسب سے پہلے حکمرانی بہتر ہوگی۔ چھوٹے صوبوں میں فیصلے جلد ہونگے اور عوام کو مسائل کے حل کیلئےبڑے شہروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔
مزید یہ کہ مقامی سطح پر اختیار بڑھے گا۔
وسائل کی منصفانہ تقسیم ایک بڑا فائدہ ہے۔ جب فنڈز براہِ راست چھوٹے صوبوں کو ملیں گے تو پسماندہ علاقے بھی ترقی کے مساوی مواقع حاصل کریں گے اور محرومی کا احساس کم ہوگا۔ اختیارات کی مرکزیت ٹوٹے گی، بیوروکریسی کا بوجھ کم ہوگا اور عوامی خدمت کے ادارے زیادہ مؤثر اور جواب دہ ہوں گے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں عوام کے قریب ہونگی اور عام شہری بنیادی حقوق سے محروم نہیں رہیں گے۔ علاقائی ترقی تیز ہوگی۔ چھوٹے صوبے اپنے انفراسٹرکچر کے منصوبے شروع کر سکیں گے۔ سیاحت، زراعت اور صنعت کو فروغ ملے گا اور سرمایہ کار ان علاقوں کا رخ کریں گے جہاں پہلے وسائل اور توجہ نہیں ملتی تھی۔ اس عمل سے روزگار میں اضافہ ہوگا، مقامی صنعتوں کو سہارا ملے گا اور نئی نسل کیلئے مواقع پیدا ہونگے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبوں کے اضافے سے قومی یکجہتی بڑھے گی۔ علاقائی شکایات کم ہوں گی اور ہر علاقے کو یہ اطمینان ہوگا کہ وہ قومی ترقی میں برابر کا حصہ دارہے۔ یہی احساس حب الوطنی کو مضبوط کرتا ہے اور قوم کو ایک اکائی میں جوڑتا ہے۔
پاکستان ایک ایسے نکتے پر کھڑا ہے جہاں پرانے ڈھانچے کیساتھ آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اگر ہم نے اپنے صوبوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیا تو مسائل بڑھتے رہیں گے، پسماندگی میں اضافہ ہوگا اور ترقی کا عمل سست پڑ جائیگا۔ لیکن اگرآج ہم نے بروقت قدم اٹھایا تو نہ صرف عوامی مسائل حل ہونگے بلکہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائیگا۔ پڑوسی ممالک کی کامیاب مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اب پاکستان کو بھی ان سے سبق لینا ہوگا۔ یہی راستہ پاکستان کی مضبوطی، خوشحالی اور عوامی فلاح کا ضامن ہے۔