• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف حال ہی میں جاپان کے دورے پر مع اپنی فوج ظفر موج کیساتھ گئیں وہاں انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ لاہور اور پنجاب کو وہ جاپان جیسا ترقی یافتہ بنا دیں گی۔ لاہور تو خیر سے دنیا کے کئی ممالک کیساتھ جڑواں شہر ہے اور عجیب بات وہ کسی بھی ملک کے شہر جیسا نہیں۔ میو ا سکول آف آرٹس ( این سی اے) کے سامنے، زمزمہ توپ کے سامنے کے چوک جس کو استنبول چوک بھی کہا جاتا ہے کہاں استنبول اور کہاں این سی اے کے سامنے والا چوک دور دور تک کوئی مماثلت نہیں اور پھر لاہور کو استنبول کا جڑواں شہر قرار دیدیا گیا۔ ذرا استنبول کو تو دیکھیں۔

لاہور کو درج ذیل ممالک کے ان شہروں کے ساتھ جڑواں شہر قرار دیا گیا ہے جیسے ترکی کا استنبول، شمالی کوریا کاساریوون، چین کاشیان، بیلجیم کا کورٹرِیک، مراکش کا فیض، ازبکستان کابخارا اور سمرقند، ایران کا اصفہان، مشہد، برطانیہ کا گلاسگو، امریکہ کا شکاگو، سربیا کا بیل گریڈ، پولینڈ کا کراکو، پرتگال کا کووِمبرا، تاجکستان کا دوشنبے، اسپین کا کورڈوبا ، کولمبیا کا بوگوٹا، ایران کاآمل، برازیل کاریو ڈی جینیرو ۔ اب ذرا ان ممالک کے شہر دیکھ لیں اور اپنے لاہور کا حشر دیکھ لیں کہیں سے بھی لاہور ان ممالک کے شہروں کا مقابلہ تو دور کی بات ان کے قریب قریب بھی نہیں، پھر کہتے ہیں کہ ہم پر تنقید نہ کریں۔ ارے بابا کسی شہر کا منظر ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے ساتھ تو کر کے دکھاؤ ۔ محترمہ مریم نواز نے یہ بات تو کہہ دی لیکن لاہور جاپان تو کیا اٹلی اور اسپین کے دیہات کا مقابلہ بھی نہیں کرتا۔ ہم نے گوروں کے بنائے لاہور، مغلوں کے لاہور، سکھوں کے لاہور کا تو ستیا ناس ہی مار دیا ہے۔ آئیے جاپان کا ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ہمارے وزیرتعلیم رانا سکندر جو ہمیشہ بوائے کٹ لباس میں رہتے ہیں اور دعویٰ بھی کرتے اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں یہ ان کیلئے بھی ہے۔ اساتذہ کو یوں کر دوں گا، اساتذہ کو گھر بھیج دوں گا، اگر رزلٹ اچھا نہ آیا تو یہ ایکشن لوں گا۔ ارے بھئی ہر حکومت نے ایچی سن کالج (چیف کالج) جیسے نئے اسکولز بنانے کے دعوے کئے مگر کسی حکومت نے پورا نہیں کیا۔ اب تو ایچی سن کالج کے دروازے مڈل کلاس بلکہ اپرمڈل کلاس کیلئے بھی بند ہو چکے ہیں۔ کئی وزرائے تعلیم خود یہاں پڑھتے رہے اور اپنے بچوں کو یہاں پڑھاتے رہے۔ ہم پنجاب کے کئی وزرا کو جانتے ہیں جن کے بچے ایچی سن کالج میں پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہے ہیں۔

کوئی وزیر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کو تیار نہیں۔ خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں جاپان کے شمال میں ایک چھوٹا سا گاؤں کامی شیرا تاکی ریلوے اسٹیشن تھا اس ریلوے اسٹیشن کو حکومت نے مسافر نہ ہونے کی بنیاد پر بند کرنے کا فیصلہ کیا اس دوران ریلوے حکام کو پتہ چلتا ہے کہ ایک طالبہ کاننا روزانہ اس ٹرین سے اپنے ہائی اسکول جاتی اور واپس آتی ہے تو انہوں نے اس طالبہ کی خاطر اس ریلوے اسٹیشن کو بند نہ کیا جب تک اس لڑکی نے اپنی تعلیم مکمل نہ کر لی۔ تین سال تک وہ ٹرین صرف ایک طالبہ کو لینے اور چھوڑنے جاتی تھی یہ جاپان ہے۔

آپ کے اسکولوں میں تو اسٹوڈنٹس کو پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں، واش روم نہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں فلٹرز نہیں اور آپ فرماتی ہیں کہ میں لاہور کو جاپان بنا دوں گی۔ ایسی باتیں کر کے غریب عوام کے زخموں پر مزید نمک نہ چھڑکا کریں۔ آگے ہی عوام ہر طرح سےتکلیف میں ہیں۔خیر لاہور دنیا کے کس ترقی یافتہ ملک کے شہر کا مقابلہ کرے گا یا اس جیسا ہو جائے گا یہ خام خیالی ہے نہ ہمارے عوام میں سلیقہ اور شعور ہے نہ شہر کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا اتنا وژن ہے ۔

بات ہو رہی تھی چٹا دروازے کی والڈ سٹی والوں نے اس چٹا دروازے کو دوبارہ اس کی اصل شکل و صورت میں بحال کر دیا ہے اس دروازے کو تو مسجد وزیر خان کا داخلی دروازہ بھی کہا جاتا ہے اس کو کبھی کا بلی دروازہ اور شاہی دروازہ بھی کہا جاتا تھا۔ والڈ سٹی والے لاہور کے تمام دروازوں کو ان کی اصل رنگ و روپ کے ساتھ بحال کرنا چاہتے ہیں اور جو دروازے اب نہیں شاید ان کی بھی تعمیر کی جائے گی۔ انگریزوں نے جب پنجاب پر قبضہ کیا تو اس وقت لاہور کے تقریباً تمام دروازے موجود تھے پتہ نہیں انگریزوں نے کئی دروازے کیوں گرا دیئے اس پر پھر بات کریں گے۔ مغلاں داکھو ہ دہلی دروازے میں جس جگہ پر ہے اس کو شاہی گزرگاہ بھی کہتے ہیں اگر غور کیا جائے تو دہلی دروازے سے آپ چلتے چلتے ہیرا منڈی اور شاہی قلعے تک پہنچ جاتے ہیں شاید اسی وجہ سے اس کو شاہی گزرگاہ بھی کہا جاتا ہوگا مغلاں دا کھوہ (کنواں) مغل بادشاہ شاہجہاں اوراورنگزیب عالمگیر کے دور میں تعمیر ہوا تھا یہ تاریخی کنویں آج بھی موجود ہیں مگر ان کی جس طرح حفاظت کرنی چاہیے اس طرح نہیں ہو رہی۔ اس کنویں سے عوام کو پانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ شاہی حمام تک پانی بھی پہنچایا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ اس کنویں سے زیر زمین ایک نہر شاہی حمام کو بھی جاتی تھی ۔بڑاخوبصورت کنواں ہے جو لال اینٹ سے تعمیر کیا گیا لاہور میں مغلوں کی تمام عمارات چھوٹی لال اینٹ سے تعمیر کی گئی ہیں۔

انگریزوں نے جان بوجھ کر اور شاید شہر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مغلوں کی کئی عمارات کو گرا دیا یا ختم کر دیا ۔یہ تاریخی کنواں بھی حالات کی نذر ہو گیا تھا۔ بہرحال 2012 ء میں آغا خاں ٹرسٹ فار کلچر اور والڈسٹی والوں نے شاہی حمام کی بحالی کے دوران اس کنویں کو تلاش کر لیا اب یہ کنواں عوام کو نظر آتا ہے اس کنویں کی گہرائی 40فٹ ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں لاہور میں 40فٹ پر پینے کے لیے میٹھا پانی مل جاتا تھا۔آج تو آپ کو ایک ہزار فٹ پر جا کر پینے کے قابل پانی ملتا ہے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین