• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جماعت اسلامی سید مودودی سے نعیم الرحمٰن تک

26؍اگست2025ء کو جماعت اسلامی پاکستان کا 84واں یوم تاسیس ہے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 84سال قبل جو پودا لگایا تھا وہ اب ایک تناور درخت بن گیا ہے لیکن یہ درخت تاحال پھل دینے کی پوزیشن میں نہیں ’’امانت، دیانت اور خدمت‘‘ کا معاملہ ہو تو پوری قوم جماعت اسلامی کی طرف دیکھتی ہے لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو اسکا بیلٹ بکس خالی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ المیہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اسٹریٹ پاور کی مالک جماعت کا پارلیمنٹ میں کوئی نمائندہ نہیں، جس جماعت کا ارکان کی تعداد 48ہزار ہو اور 18لاکھ ممبرز ہوں اس کے کسی رکن کا پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہ ہونا سیاسی المیہ سے کم نہیں۔ اس سوال کے جواب میں جماعت اسلامی کے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کو اتحادوں کی سیاست سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا، اتحادوں کی سیاست میں جماعت اسلامی کی شناخت گم ہو کر رہ گئی لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ اتحادوں کی سیاست سے ہی عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے متعدد رہنما پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نصف صدی قبل اسلامی جمعیت طلبہ کو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال کی حدود میں درس قرآن پاک کی اجازت نہیں دی جاتی تھی کالج کے باہر ایک دکان میں جمعیت کا دفتر قائم کیا گیا جس میں دئیے جانیوالے درس قرآن میں مجھے شرکت کا موقع ملا ۔ میں نے جنرل سیکریٹری اسٹوڈنٹس یونین کی حیثیت سے درس قرآن دینے کی اجازت دی۔ آج اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کی دہلیز پر پہنچنے والوں کی بہت بڑی تعداد قیادت کے منصب پر فائز ہے مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، جہاد افغانستان ہو یا امریکہ کی بالا دستی کیخلاف تحریک جماعت اسلامی پیش پیش رہی ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر ملین مارچ منعقد کرنا جماعت اسلامی کا طرہ امتیاز ہے۔ اس میدان میں جماعت اسلامی اپنی اسٹریٹ پاورکا بھرپور مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن وہ انتخابی میدان میں دیگر جماعتوں سے پیچھے رہی ہے 8؍فروری 2025ء کے متنازعہ انتخابات کے باعث کسی سیاسی جماعت کے ووٹ بینک کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ جماعت اسلامی کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق جماعت اسلامی کو 25؍جولائی2018ء کے انتخابات کے مقابلے میں تین گنا زائد ووٹ ملے۔ پورے ملک میں بکھرا ہو ووٹ بینک ہونے کے باعث جماعت اسلامی صرف بلوچستان اسمبلی میں ایک نشست ہی حاصل کر سکی۔ 26اگست 1941ء میں 75ارکان نے جس سفر کا آغاز کیا اس نے ایک بڑی جماعت کی شکل اختیار کر لی ہے، اگر آج سید ابوالاعلیٰ زندہ ہوتے تو انہیں یقیناً خوشی ہوتی۔ اب یہ درخت 84سال کا ہو گیا ہے اسکو بڑھاپے کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے نوجوان خون کی ضرورت ہے جو جماعت کے اندرونی انتخابات کے ذریعے فراہم کیا جاتا رہتا ہے۔ اگرچہ مجھے زمانہ طالبعلمی سے جماعت اسلامی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے لیاقت بلوچ میرے ہمعصر ہیں امیر الاعظیم سے تعلق خاص اس وقت پیدا ہوا جب وہ جماعت اسلامی کے سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔ نذیر جنجوعہ میرے گائوں کے سپوت ہیں۔ قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کی محفل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ حافظ نعیم الرحمٰن امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے تو جماعت اسلامی کے کارکنوں میں آگے بڑھنے کی امید پیدا ہوئی انکی امارت میں بڑا پاور شو بجلی کے نرخوں کیخلاف بھرپور احتجاج تھا عوام کو بجلی کی مد میں جو تھوڑا بہت ریلیف ملا ہے وہ جماعت اسلامی کے ایجی ٹیشن کا مرہون منت ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام سے لیکر اب تک 6امیر رہے۔ سید ابوالا علیٰ 1941ء سے 1972ء تک 31سال تک امیر رہے خرابی صحت کے باعث امارت سے الگ تو ہو گئے لیکن جب تک وہ زندہ رہے جماعت اسلامی میں ان ہی کا سکہ چلتا رہا یہ بد قسمتی ہے کہ انکے صاحبزادوں کی جماعت اسلامی سے راہیں الگ ہو گئیں چونکہ جماعت اسلامی میں سیاسی وراثت کا تصور نہیں۔ یہ بات صرف سید ابو الا مودودی ؒ کے صاحبزادوں تک محدود نہیں انکے بعد آنیوالے تمام امراء کی اولاد کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ بیشتر کا کسی کو نام بھی معلوم نہیں۔ جماعت اسلامی اپنےڈسپلن کے باعث 84سال سے اپنے مقام پر کھڑی ہے جماعت اسلامی میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ اختلاف اسکے مقرر کردہ فورم پر ہی کیا جاسکتا ہے اسی لئے جماعت اسلامی کے اندر کسی اختلاف کی باہر آواز سنائی نہیں دیتی۔ مرحوم راجہ ظہیر خطہ پو ٹھوہار کے درویش صفت پارلیمنٹیرین تھے انہوں نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ میں نے تحریک عدم اعتماد کی خبر شائع کر دی تو قاضی حسین احمد خبر کا سورس پوچھتے رہے انہوں نے خبر کا سورس نہ بتانے پر ناراضی کا اظہار کیا لیکن میں نے سورس نہ بتایا ۔ جماعت اسلامی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ہے جو دینی امور پر کمپرو مائز نہیں کرتی لیکن پہلی بار قدامت پرستوں (بائیں بازو کا الزام ) کی جماعت کا ایک بابو امیر بن گیا ہے اپریل2024ء کو سٹنگ امیر سراج الحق کی جگہ حافظ نعیم الرحمٰن نے لے لی عام تاثر یہ تھا کہ سراج الحق لمبی اننگز کھیلیں گے لیکن 8فروری 2024ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست کے اثرات امارت کے انتخابات پر پڑے ارکان کی اکثریت نے حافظ نعیم الرحمٰن کے حق میں فیصلہ دیدیا ۔ فی الحال جماعت اسلامی کی مقبولیت کے گراف کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن ایک بات واضح ہے حافظ نعیم الرحمن نے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران84سالہ جماعت کو جواں سال بنا دیا ہے عام تاثر یہ تھا حافظ نعیم الرحمٰن امیر منتخب ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے ڈھانچے اور پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلیاں لائینگے۔ لیکن سر دست جماعت اسلامی ان ہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو سراج الحق کے دورمیں چل رہی تھیں۔ جماعت اسلامی نے سولو فلائٹ کا فیصلہ برقرا رکھا ہے البتہ جماعت اسلامی کی پالیسیوں میں جارحانہ شدت آگئی ہے جماعت اسلامی ایشوز کی بنیاد پر ہر وقت سڑکوں پر نظر آتی ہے۔

تازہ ترین