• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال ماہِ اگست کے آغاز سے ہی وطنِ عزیز کے قیام کی خاطر عظیم مسلمان راہنمائوں کی سالہاسال کی انتھک، بے لوث،جراتمندانہ اور مخلصانہ کوششوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ، بِلاشبہ 14اگست کو ہماری زندگیوں میں ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ اِ س سال بھی پوری قوم نے اِ س دن کو آزادی کے دن کے طور پر منا کر ایک زندہ و جاوید قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ ہر جانب سبز ہلالی پرچم دیکھ کر دل کو ایک سکون سا مِل جا تا ہے، گلی گلی قریہ قریہ ملی نغمے کانو ں میں فرحت بخش رس گھولتے ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد اور بزرگوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اور مال اسباب لُٹا کر یہ پیارا وطن ہمیں دلایا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی دلیرانہ اور با صلاحیت قیادت ہی کی نتیجہ تھاکہ دنیا کے نقشہ پر اس وطنِ عزیز کا نام علیحدہ سے لکھا گیا۔ آپ اور آپ کے رفقاء نے وطن عزیز کے قیام کا مقدمہ اس قدر جانفشانی سے لڑ کر جیتا کہ جسکی دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ قیام ِ پاکستان دو چار دن کی کوشش اور جدوجہد کا نتیجہ نہیںبلکہ کئی دہائیوں پرمحیط ایک منظم تحریک تھی کہ جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے رفقاء میں قلندرِلاہوری علامہ محمد اقبال ، لیاقت علی خان ، محترمہ فاطمہ جناح، خواجہ ناظم الدین ، سردار عبدالرب نشتر ، مولانا محمد علی جوہر اور حسین شہید سہروردی سمیت لاتعداد نامور شخصیات شامل تھیں کہ جنہوں نے مسلمانانِ ہندکیلئے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد میں اپنا خون پسینہ شامل کر کے رہتی دنیا کیلئے وفا ، عزم اور حوصلے کی وہ تاریخ لکھ ڈالی کہ جسے تااَبد فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ ربِ کریم ہمارے اِن عظیم محسنوں کی قبور کو مُنور فرمائے اور اُن کے درجات بلند تر فرمائے۔ ہمارے عظیم راہنمائوں نے اس وطنِ عزیز کو حاصل کرکے اسکی کُنجیاں ہمارے حوالے کر دیں۔ اس مُلک کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ دہائیوں سے ہمارے پاس ہے۔ اِس ملک کا جو حشر نشر پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہوسِ اقتدار ، اقربا پروری اور مالی لوٹ کھسوٹ کا بازار کیا کم گرم تھا کہ یہ وطنِ عزیز ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے دولخت ہو گیا اُس روز قیامِ پاکستان کی تحریک کے درخشاں ستاروں کی ارواح تڑپ اُٹھی ہوں گی کہ جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو گیا۔ المناک سانحہء سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ہماری آنکھوں سے غفلت کی پٹی نہ اُتری۔ آج قائداعظم کا یہ وطنِ عزیز قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ آج علامہ اقبال کا یہ ملک طرح طرح کی مشکلا ت سے دوچار ہے۔ بد قسمتی سے یہ معاشرہ وہ شکل پیش نہیں کر پایا کہ جسکا خواب قائدعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ آج معاشرے میں دھوکہ ، جھوٹ اور فراڈ سرایت کر چکا ہے۔ پیسے کی ہوس نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بازاروں میں ملاوٹ سے پاک کوئی شے دستیاب نہیں ۔ ادویات تک خالص ہونے کی کوئی سند نہیں دے سکتا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے جنات نے عوام کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے۔ انصاف کا حصول بھی کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان ما یوسی کے عالم میں بیرونِ ملک بھاگ رہے ہیں۔

ہر طرف اِ ک عجیب سی غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ یہ ہمارے حالات کی تصویر کا ایک رُخ ہے۔ دوسری جانب دیکھیں الحمدللہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اِس وطنِ عزیز کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ 3ماہ قبل ہمارے پڑوسی ملک نے اپنی عددی برتری کے بل بُوتے پر وطنِ عزیز کے خلاف بزدلانہ اور جارحانہ حرکت کر کے وہ سبق حاصل کیاکہ جسے وہ قیامت تک نہیں بھول پائے گا۔ اگر اس وطنِ عزیز کو درپیش مسائل کو گننا شروع کر دیں تو ایک لمبی چوڑی فہرست بن سکتی ہے مگر زندہ قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیں بلکہ حالات کا جواں مردی اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا کرتی ہیں۔ ذراغور کیجئے کہ قیامِ پاکستان کی تحریک کم و بیش نوے سال جاری رہی۔ اس عرصہ میں مسلمان راہنمائوں نے ہندوئوں کے ہاتھوں کون سا ظلم برداشت نہیں کیا ۔ طرح طرح کی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا۔ انہوں نے اپنے گھر بار لُٹا دیئے حتیٰ کہ اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کر دیے۔ اس وطنِ عزیز کے قیام میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نوے سالہ تحریک آزادی کے دوران کسی قائد ، راہنما یا کسی بھی فرد نے کبھی مایوسی کا اظہار کیا ہو یا کبھی ہمت ہاری ہویا کبھی اُن کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش آئی ہو یا کبھی مشکلا ت و تکالیف سے تنگ آکر کسی نے راہ فرار اختیار کی ہو، ایسا ہر گز کبھی نہیں ہوا ۔ ذراموازنہ کیجئے اُن تکالیف اور مصائب کا جن کا سامنا حصولِ وطن کی تحریک کے دوران ہمارے قائدین اور آبائو اجداد نے کیا۔ اُنہوں نے اپنی کل جمع پُونجی اور عزت و آبرو اپنی جانوں سمیت اس ملک کی خاطر قربان کر دی اور آج جن مسائل او رمشکلات سے ہم دوچار ہیں وہ اُن مسائل کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اِس پیارے وطن کی شکل میں ایک چھت عطا فرما رکھی ہے۔ اس چھت کے نیچے چھوٹے موٹے مسائل حل کر نےکیلئے ہمیں ہمت و حوصلے سے کام لینا پڑے گا۔ نااُمیدی اور بد دلی کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔ مُصمم ارادے، لگن اور درست سمت میں جدوجہد سے ملکی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم یہ طے کر لیں کہ اس وطنِ عزیز کو اپنے گھر کی طرح تصور کرتے ہوئے اسکی اصلاح بہتری اور ترقی کیلئے اپناکردار ادا کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ اِس قوم کیلئے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

آپ ہی نے فرمایا تھا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

تازہ ترین