گلگت بلتستان سیاحتی لحاظ سے بہت اہم اور خوبصورت علاقہ ہے لیکن اس کی خوبصورتی اور ماحول کو Unplanned ٹوارزم کی وجہ سے بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطرات گزشتہ پانچ چھ سالوں سے زیادہ شدت کے ساتھ سر اٹھا رہے ہیں لیکن اس کا ادراک کمیونٹی اور حکومتی سطح پر کم کیا جارہا ہے جو کہ بذات خود خوفناک ناک امر ہے۔ چونکہ یہ سارا علاقہ پہاڑوں ، دریائوں، ندی نالوں ، چراگاہوں اور پانی کے وسائل پر مشتمل ہے لہٰذا ماحولیاتی طور پر Fragile ہے اور کوئی بھی ڈویلپمنٹ کرنے کیلئے اس حساسیت کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ قدرتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
ان دنوں گلگت بلتستان عمومی اور بلتستان خصوصی طور پر زد پذیری کا شکار ہے۔ اس کی واضح مثالیں یہ ہیں کہ اس خطے کی خوبصورتی اور سیاحتی پوٹینشل کو دیکھ کر یکدم سرمایہ کاروں کی ایک فوج ظفر موج نے یہاں کا رخ کر دیا ہے اور ہوٹلز، موٹلز اور گیسٹ ہاؤسز بنانےکیلئے سرمایہ لگا رہے ہیں۔ انویسٹمنٹ بہت اچھی بات ہے مگر کسی لیگل فریم ورک کی عدم موجودگی ، بلدیاتی اور ضلعی حکومتوں کے نظام کی عرصہ دراز سے معطلی اور مناسب سیاحتی اور انوائرمنٹل پالیسیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل نے جنم لینا شروع کیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرمایہ کار بھاری رقمیں دے کر دریاؤں ، جھیلوں ، چشموں اور ندی نالوں اور پانی کے کوہل کے اطراف کی زمینیں خرید رہے ہیں اور بغیر منظوری پلان کے تعمیرات کئے جارہے ہیں۔ ادھر ایڈمنسٹریشن اور ذمہ دار حکام نے آنکھیں بند رکھی ہیں جس کی وجہ سے ہر جگہ چاہے کھائی ہو یا ڈھلوان ، ندی نالے ہوں یا قدیم راستے یا چراگاہیں اسٹیل اور سیمنٹ کی بلند عمارتیں بن رہی ہیں جسکے ماحولیاتی اثرات اب سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔
اسکردو کی ایک تازہ مثال سے ہم اس بے لگام تعمیرات کے مضر اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جسکی بنیادی وجہ ذمہ داروں کا آنکھ کا بند رکھنا ہے۔ ہرگیسہ نالہ سدپارہ ڈیم سے آنے والے پانی کا واحد ذریعہ ہے اور یہ پینے اور کھیتی باڑی دونوں کے کام آتا ہے۔ اسی نالے سے تین بڑے کوہل اسکردو شہر اور اطراف کیلئے پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کوہل الڈینگ جس کا پانی سارے شہر کو واٹر سپلائی دینے کیلئے بنائے گئے اسٹوریج کو بھرتا ہے اور پھر اس کے بعد مختلف محلوں سے گزرتا ہے۔ اسی کوہل کے ابتدائی حصے میں عمودی جانب پینتالیس ڈگری بلند ڈھلوانی کھائی پر زینہ دار بنائے گئے ہوٹل کے سیوریج کا پانی کوہل میں گررہا تھا۔ یوں یہ آلودہ پانی اسٹوریج ٹینکوں میں جارہا تھااور نلکوں کے ذریعے ہر گھر میں تقسیم ہو رہا تھا۔ محلہ داروں اور عمائدین علاقہ کے غم و غصّے اور نشان دہی پر وقتی طور ہوٹل کا آپریشنل کام روک دیا گیا ہے اور کچھ حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گی ہے لیکن کیا یہ مینجمنٹ ہے۔ اس کا ذکر اس لئے کہ یہی صورتحال ہر ضلع میں اور تقریباً ہر سیاحتی مقام کو درپیش ہے لیکن ماحولیاتی تحفظ کا نظام سرے سے مفقود ہے۔ بلدیہ اور ضلعی کونسلیں موجود نہیں، کہیں بھی بلڈنگ کوڈز پر عملدرآمد اور مانیٹرنگ کرنے کا نظام موجود نہیں ۔ ہر شخص اپنی مرضی سے جب چاہے جہاں چاہے کچھ بھی تعمیر کر دیتا ہے اس کیلئے نہ تو انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری چاہئے نہ ہی ٹاؤن پلاننگ اتھارٹی اور نہ کسی ذمہ دار محکمے سے پیشگی اجازت بس جیب میں پیسے ہونا شرط ہے۔ان متذکرہ اداروں کی فعالیت کا اندازہ تو مرکزی شہر اسکردو کے حالیہ اس واقعے سے ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ اسکردو شہر میں یہ سب کچھ ہورہا ہے تو مضافات اور دیہی علاقوں میں جو اندھیر نگری ہے اس کا سوچنا ہی کار عبث ہے۔
اسکردو شہر سے مشرق کی طرف کھرمنگ اور خپلو جانے والی روڈ پر چلے جائیں تو آپ دیکھ پائیں گے کہ سڑک سے دریائے سندھ کی طرف کوئی کونہ، کنارہ اور موڑ باقی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی عمارت سرنہ اٹھا رہی ہو یوں مستقبل میں سڑک سے کوئی اچھا نظارہ بھی ممکن نہیں لگتا ہے۔ اسی طرح کچورا دیکھ لیں کتنا خوبصورت قدرتی حسن سے بھرپور گاؤں تھا اب ان گنت بے ترتیب ہوٹل اور گاڑیوں کی پارکنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک انگریز نے عطا آباد جھیل کے کنارے بنے ہوئے ایک بڑے ہوٹل کی وڈیو سوشل میڈیا میں شیئر کی ہے کہ کس طرح اس ہوٹل کے سیوریج کا پانی جھیل میں شامل ہوکر نیلے شفاف پانی کو گدلا کررہا ہے ۔ طاقتور لوگوں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے زیادہ شور اٹھنے پر ایک آدھ کارروائی کی جاتی ہے اور پھر وہی چال بے ڈھنگی اسی ڈھنگ سے جاری و ساری رہتی ہے۔کم بیش یہی صورت حال تقریباً ہر ضلع میں نظر آتی ہے۔ اسکردو اور ہنزہ کا تذکرہ اس لئے کہ ان دونوں علاقوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچتی ہے لہٰذا زیادہ ماحولیاتی مسائل ممکن ہیں۔ ترقی کے مواقع اور کاروباری ذرائع ضرور پیدا کریں مگر قدرتی مناظر اور ماحولیاتی تباہی کی قیمت پر ہرگز نہیں۔
عرصہ پہلے اسکردو میں موجود قدرتی چشموں کا پانی نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا اور اکثر لوگ ان چشموں کے پانی سے لطف اٹھاتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ WHO اور دیگر اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان چشموں میں نہ صرف جراثیمی آلودہ پانی ہے بلکہ آرسینک اور پارہ کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ شہر چونکہ غیر ہموار ہے لہٰذا بالائی محلوں کا سیوریج شہر کے پانی محلوں میں جاکر ذخیرہ ہو جاتا ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی اور کوئی منظم انتظام نہ کیا گیا تو آگے چل کر کیا ہوگا اس خیال سے ابھی جھرجھری آتی ہے۔ دوسری طرف بڑھتی آبادی اور سیاحت کی وجہ سے کوڑا کرکٹ اور فضلہ ہر طرف پھیل رہا ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ جس میں گار بیج اکٹھا کرنے سے لیکر ری سائیکلنگ یا تحلیل کرنے کا میکنزم کہیں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ڈیزائن کیا جارہا ہے۔ کہنے کو تو ہم ان علاقوں کو سوئٹزرلینڈ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے خدو خال دراصل سوئٹزرلینڈ سے بھی بڑھ کر ہیں لیکن ہم اپنے ہاتھوں سے اس کی جو درگت بنائے جارہے ہیں اس پر پوری دنیا ہم پر ہنسے گی اور افسوس کرے گی۔