امسال بھی گزشتہ برسوں کی طرح معمول سے زیادہ مون سون کی بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب اُمڈ آیا اوراور اب تک ایک اندازے کے مطابق 800سے زیادہ افراد کی جانیں لے گیا۔ بونیر میں سیلاب بادل پھٹنے کی وجہ سے آیا اور پورے کا پورا گاؤں ہی بہا کر لے گیا۔سائنسی اعتبار سے سیلاب آنے کی وجہ ماحولیاتی تغیر ہے یعنی گلوبل وارمنگ ۔ بے دریغ درخت کاٹنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جسکے نتیجے میں گلیشیئر کے پھٹنے یا پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں۔ اسکے علاوہ غیر رسمی بارشیں بھی سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔
دریائے ستلج میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی،ستلج کے پانی سے بیری پیر سمیت کئی مقامات پر حفاظتی بند ٹوٹ گئے، 72 دیہات شدید متاثر ہوئے اور پانی گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوگیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہو گئے۔قادرآباد بیراج کے قریب حفاظتی بند بارودی مواد سے اڑادیاگیا،کہتے ہیں قادرآباد بیراج کو بچانے کیلئے حفاظتی بندتوڑا گیا، دریائے چناب کے 35سےزائد دیہات زیرآب آ گئے ہیں۔پی ڈی ایم اے پنجاب نے صوبے کے بالائی حصوں میں مون سون بارشوں کے نویں سپیل کا الرٹ جاری کردیا ہے۔پنجاب کے بیشتر اضلاع میں شدید طوفانی بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، گوجرانولہ، لاہور، گجرات اور سیالکوٹ میں مزید بارشیں متوقع ہیں۔ ڈیرہ غازی خان، ملتان اور راجن پور میں بھی بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
سیالکوٹ جیسے شہر میں سیلاب کے باعث متعدد مقامات پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا جبکہ شہری اور دیہی علاقوں میں پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔سیلابی پانی کے باعث لوگوں کے ذرائع آمد و رفت معطل ہوکر رہ گئے جبکہ سیالکوٹ کی تمام سڑکیں پانی کی وجہ سے بند ہیں۔سیالکوٹ کے محلہ اسلام آباد، رنگ پورہ، کینٹ، نیکا پورہ سمیت پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے جس سے بچنے کیلئے لوگ گھروں کی دوسری منزلوں پر پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کاکہنا ہے کہ شہر سے گزرنے والے نالوں میں پانی کی سطح کم ہونے تک سیلابی پانی نہیں نکالا جا سکتا۔
یادرکھیں بارشیں اورسیلاب عذاب نہیں،بلکہ ہماری بد انتظامی کا نتیجہ ہیں۔ جب جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار جنگلات کاٹ کر اپنے تجارتی مفادات پورے کریں اور ریاستی مشینری خاموش تماشائی بنی رہے، تو بارش اور سیلاب تباہی لے آتے ہیں۔جب حکمران عوامی ٹیکس کا پیسہ ڈیم، نکاسی آب اور حفاظتی بند بنانے کے بجائے پروٹوکول، محلات اور غیر ملکی قرضوں کی عیاشیوں پر خرچ کریں، تو سیلاب ناگزیر ہو جاتے ہیں۔جب نظامِ معیشت قرضوں، سود اور لوٹ مار پر کھڑا ہو، تو عوام کے پاس نہ پختہ مکانات ہوتے ہیں اور نہ ہی قدرتی آفات سے بچاؤ کی سہولتیں۔اصل مسئلہ قدرتی آفات نہیں، بلکہ مروجہ فرسودہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اگر معاشرہ عدل و انصاف پر قائم ہو، وسائل عوامی فلاح پر لگیں اور زمین و ماحولیاتی وسائل کی حفاظت کی جائے تو یہی بارشیں’’رحمت‘‘بنیں گی،’’زحمت‘‘ نہیں۔ بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں، وہاں بھی سیلا ب آتے ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق پورے انتظامات کرتی ہیں۔
چین اور انڈیا سمیت بڑے ممالک میں درجنوں ڈیم بنے ہوئے ہیں جہاں وہ پانی ذخیرہ کرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بارشیں نہ ہوں تو پانی نایاب ہو جاتا ہے اور جب ہوں تو سیلاب اُمڈ آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات کا فقدان ہے۔کاش ہم نے ڈیم بنانے کی طرف توجہ دی ہوتی تو آج سیلاب میں ڈوبنے کی بجائے سیلاب کا پانی ہم ذخیرہ کر سکتے ،بس پروٹوکول اور عیاشیاں ہمیں لے ڈوبی ہیں اور ہمارے حکمرانوں نے جو کام کرنے تھے وہ نہیں کیے۔افسوس بروقت ملک میں ڈیم تعمیر نہ ہوئے اور پہاڑوں سے آنے والا بیش قیمت پانی آج تباہی و بربادی کا باعث بنا نظر آ رہا ہے۔ اس کو روکا نہیں جا رہا۔پانی جو ہمارے لیے اللہ کی خاص نعمت ہے وہ نعمت کے بجائےزحمت بنتا نظر آ رہا ہے۔ کاش کالا باغ ڈیم جیسے ڈیم بروقت بنتے تو آج پانی کے نتیجے میں قیامت صغریٰ نہ آتی۔کالا باغ ڈیم نہ بننے کی صورت میں صرف نقصان ہی نقصان ہواہے اور مجموعی طور پر صرف معکوس ترقی کا عمل ہے۔لہٰذا ڈیم کے مخالفین کا مخالفانہ رویہ میری رائے میں مثبت قدم نہیں ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت کچھ اچھا پانے کیلئے کبھی کبھار تھوڑی بہت قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ اگر ڈیم بننے سے سندھ کو مجموعی طور پر فوائد زیادہ اور نقصانات کم ہیں تو پھر ڈیم کی مخالفت صحیح نہیں۔
پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن ابھی تک بیچارے پاکستانی ایسی کسی بھی پروجیکٹ کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کو لے لیں، یہ منصوبہ 1980ء سے زیر غور ہے اور 2020ءمیں اس پر کام تیز کرنے کا اعلان کرکے دعویٰ کیا گیا کہ ڈیم کی تعمیر 2028 میں مکمل ہوگی۔ بہرحال، حکومت کو اس سے آگے کا بھی سوچنا چاہیے کیوں کہ اب ملک مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیم سمیت مزید ڈیم بنانے چاہئیں۔ حکومت کو درخت کاٹنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنا چاہیے۔ اس کیلئے حکومت کو سب سے پہلے اس طرح کے کاموں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا ہوگی۔