• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کے طول و عرض میں بارشیں ناگہانی آفت بن کر نازل ہو رہی ہیں۔ خیبر پختونخوااور گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے باعث اربوں کا نقصان ہو چکا ہے اور سینکڑوں انسان جان کی بازی ہارگئے ہیں۔ کے پی کے اور گلگت بلتستان کے بعد پنجاب کے دریا بپھر ے نظر آرہے ہیں۔ بھارت نے راوی، ستلج اور چناب میں جمع شدہ پانی یکدم چھوڑ کر اورتما م اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لگتا ہے مئی 2025ء میں ہونے والی شکست کابدلہ لینے کی سعی لا حاصل کی ہے۔سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ معطل کر کے بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سند ھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پانی کی آمد کے بارے میں انڈس واٹر کمشنر کو پاکستان میں اطلاع دینے کا پابند ہے مگراس نے پانی کو اپنے مدھو پوراور دیگر ڈیموں میں پوری طرح بھر کر پھر تینوں دریائوں میں یعنی راوی، چناب اور ستلج میں یک دم سپل ویز کھول کر پانی پاکستان کی طرف چھوڑ کر آبی جارحیت کا ارتکاب کیاہے۔ پاکستان میں ہر سال کروڑوں کیوسک پانی سیلاب کی شکل میں آکر تما م انفراسٹرکچر کو تباہ کرتا ہو ا سمندر برد ہو جاتا ہے۔ مگر ہم گزشتہ آٹھ دہائیوں سے اس کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے جس کی معیشت کا ستر فیصد زراعت پر انحصار کر تا ہے ہم پانی کو ضائع کر رہے ہیں۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پانی جمع کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدے کے تحت دو ڈیم تربیلا اور منگلا کے نام سے تعمیر کئے گئے تھے۔مگر اس کے بعد پانی اسٹور کرنے کیلئے کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا قیمتی پانی سمند ر کی نذر ہو ررہا ہے۔ اور ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اس پا نی کو چینلائز کر کے کو ئی فائدہ اٹھا نہیں پا رہے ہیں۔اور تمام پانی سمند برد ہو رہا ہے ایک رپورٹ کے مطابق اپریل 2025ء سے لیکر اب تک ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ ایکڑ فٹ پا نی ہمارے دریائوں سے نکل کر سمند ر میں گر چکا ہے۔

اس کی اگر مالیت کا اندازہ لگائیں تو ایک ملین ایکڑ فٹ کی قیمت ایک ارب ڈالر بنتی ہے اس حساب سے 11 ارب ڈالر کا قیمتی پانی سمندر کی نذر ہو چکا ہے۔ روزنامہ جنگ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ڈیموں میں مجموعی طور پر پا نی کا ذحیرہ ایک کروڑ 16 لاکھ فیٹ ہے۔لہٰذا سمند ر میں اب بھی 2لاکھ11ہزار کیوسک پانی گر رہا ہے۔ دونوں بڑے ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے نئے ڈیم تعمیر کیے جا ئیں۔ تعمیر کے وقت تربیلا ڈیم میں 80لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد گنجائش موجود تھی مگر وقت کیساتھ ساتھ پانی کیساتھ آنیوالی مٹی نے اسکی پانی اسٹور کرنے کی گنجائش کم کر دی ہے، اب ایک لاکھ اناسی ہزار کیوسک پانی آنے کے بعد گنجائش نہ ہونے سے ایک لاکھ چون ہزار کیوسک پانی کا اخراج جاری ہے۔ اگر تربیلا کے بعد ڈاؤن اسٹریم پر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جائے تو دریائے سندھ کا پانی اور بارشو ں سے حاصل ہونیوالا پانی اس ڈیم میں اسٹور کیا جاسکتا ہے اور سیلاب کے خطرے سے بھی ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جائیگی۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کا سب سے کم لاگت کا ڈیم بنے گا کیونکہ اسکے تین اطراف میں قدرتی طور پر دریا اور پہاڑ ہیں صر ف ایک طرف تعمیرات کر کے نہ صرف پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے بلکہ سستی بجلی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے یہ ڈیم روز اول سے سیاست کی نذرہو کر تعمیر کے مرحلے میں نہ آ سکا۔

کے پی کے کا خدشہ تھا کہ اس کا شہر نوشہرہ کالا باغ ڈیم تعمیر ہونے سے ڈوب جائے گا۔ حالانکہ واپڈاکے ایک سابق چیئرمین شمس الملک نے تکنیکی بنیادوں پر اس خدشے کو مسترد کر دیا تھا اور ثابت کیا تھا کہ نوشہر ہ کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو گا۔ اس منصوبے کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت اے این پی کے سابق صدر ولی خان مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر میانوالی شہر جہاں پر کالا باغ ڈیم بنے گا اس شہر کو کے پی کے میں شامل کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ دوسرا اعتراض صوبہ سندھ کو ہے کہ اس کی زمینیں پانی کم ہونے کی وجہ سے بنجر ہو جائینگی۔ لہٰذا سند ھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور ان کی پارٹیاں بھی شدومد سے اس کی مخالفت میں کمر بستہ رہیں۔ یہ دونوں مسائل اتنی شدومد سے بنائے گئے اور سیاسی منظر نامے پر اٹھائے گئے کہ حکومت نے دیا مر بھا شا ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا۔ یہ ڈیم شروع ہو چکا ہے اور اندازے کے مطابق 2030ء تک مکمل ہوگا مگر معروضی حالات یہ ہیں کہ بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اس کے اطراف جانے والی سڑکیں ہر سال تبا ہ ہو جاتی ہیں اور دوبارہ تعمیر کی ضرورت پڑتی ہے۔

لہٰذا حالا ت سے تو معلوم ہو تا ہے کہ اسکا حال بھی نیلم جہلم پراجیکٹ کی طرح ہوگا ۔اس وقت حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاق کی تمام اکائیاں سر جوڑ کر بیٹھیں اور کا لا باغ ڈیم کیساتھ سا تھ سندھ اور پنجاب میں ڈاؤن اسٹریم پر ستلج، چناب اور راوی کے سیلابی پانی کو جمع کرنے کیلئے ڈیم تعمیر کریں۔ اگر کے پی کے کو کالا باغ ڈیم کی رائلٹی دے کر اور سندھ کو پانی کے موجودہ حصے میں سے زائد پانی دے کر بھی کالا باغ ڈیم بنا نا پڑے تو بنا لینا چاہئے۔

تازہ ترین