• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران بارشوں اور سیلابوں کی شدت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، حال ہی میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، پنجاب کے سینکڑوں دیہات زیرآب آ گئے ہیں، کئی سو افراد ہلاک اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں ۔اور یہ سب کچھ محض قدرتی تغیرات کا نتیجہ نہیں بلکہ گلوبل وارمنگ کی ایک بھیانک شکل ہے۔ عالمی تحقیقاتی اداروں کے مطابق بھارت اور پاکستان میں مون سون کی بارشیں معمول سے کئی گنا زیادہ ہو ئی ہیں، جسکے نتیجے میں طوفانی بارشیں، دریاؤں میں طغیانی، زمین کھسکنے کے واقعات اور بڑے پیمانے پر تباہی سامنے آ رہی ہے۔ 2022ء کا تباہ کن سیلاب اس کی ایک واضح مثال ہے جس نے نہ صرف ملکی معیشت اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بھی اجاڑ دیں۔ یہ سب ہمیں متنبہ کرنے کیلئے کافی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو ایک حقیقی اور سنگین خطرہ سمجھا جائے اور اس کے تدارک کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی ساری ذمہ داری صرف موسم ،گلوبل وارمنگ اور گلیشیر پگھلنے پر ڈال دینا درست نہیں۔ پاکستان میں ناقص شہری منصوبہ بندی، دریاؤں کے کناروں پر غیرقانونی آبادیاں اور ندی نالوں پر قبضے اس آفت کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ ہم اکثر دریا کے قدرتی راستوں کو تنگ کر کے یا مکمل بند کر کے ان پر ہوٹل، رہائشیں تعمیر کر لیتے ہیں۔ جب بارش کی شدت معمول سے بڑھ جائے یا پہاڑوں سے پانی زیادہ مقدار میں آئے تو یہی آبادیاں سب سے پہلے نشانہ بنتی ہیں۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کی مشکلات میں بیرونی عوامل کا بھی کردار ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت سیلابی دنوں میں جان بوجھ کر پانی چھوڑ دیتا ہے تاکہ پاکستان کو مشکل میں ڈالا جائے۔ یہ الزام کسی حد تک درست بھی مان لیا جائے، تو اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی دیرپا حکمتِ عملی اپنائی؟ بھارت نے پچھلے چند عشروں میں درجنوں ڈیم ، نہریں اور آبی ذخائر تعمیر کیے، جن سے نہ صرف وہ پانی کو قابو میں رکھتا ہے بلکہ اپنی توانائی اور زرعی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ڈیم سازی اور نئی نہروں کی تعمیر کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ تو بارشوں اور دریاؤں کے اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کا مؤثر نظام ہے اور نہ ہی بجلی اور زراعت کیلئے مطلوبہ وسائل۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھارت چاہے پانی چھوڑے یا نہ چھوڑے، ہمارا اپنا کمزور انفراسٹرکچر ہمیں ہر بار ڈبو دیتا ہے۔ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں خصوصاً شمالی علاقہ جات ،آزاد کشمیر ، کے پی کے اور مری گلیات میں درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی عرصے سے جاری ہے۔ جنگلات کے سکڑنے اور ہریالی کے کم ہونے سے نہ صرف قدرتی ماحولیاتی توازن بگڑتا ہے بلکہ بارشوں کے پیٹرن بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ درخت بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے اور سیلاب کے بہاؤ کو روکنے میں قدرتی ڈھال کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی کمی نے زمین کو ننگا، کمزور اور موسم کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں’’کلاؤڈ برسٹ‘‘یعنی بادل پھٹنے کے واقعات زیادہ دیکھنے میں آئے، جنہوں نے اچانک شدید بارش کے ذریعے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ یہ سب عوامل مل کر اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ انسانی غفلت نے قدرتی آفات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا دریا یا سمندر کے کنارے آبادیاں قائم کرناخطرناک اور غیر محفوظ ہوتا ہے؟ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف کناروں پر آبادیاں ہیں بلکہ کئی مقامات پر پانی کے اوپر بھی رہائشیں موجود ہیں۔ لیکن وہاں سیلاب پاکستان جیسی تباہ کاریاں نہیں لاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے منصوبہ بندی، قانون کی عملداری اور جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ ان ممالک میں کسی بھی بڑے منصوبے سے پہلے مکمل سائنسی تحقیق کی جاتی ہے، قدرتی ماحول کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ وہاں قانون پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے اور تعمیرات مخصوص ضوابط کے تحت کی جاتی ہیں۔پاکستان میں بیشتر تعمیرات بغیر کسی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیے بغیر کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی بارش نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے بڑے سانحے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اگر ہم واقعی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے دریاؤں کے قدرتی راستوں کو بحال کرنا ہوگا۔ غیرقانونی تعمیرات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ شہری منصوبہ بندی میں فلڈ مینجمنٹ، بارش کے پانی کیلئے محفوظ گزرگاہیں، واٹر ری سائیکلنگ ، واٹر اسٹوریج اور شجرکاری کے وسیع منصوبے شامل کرنا ہوں گے، اسکے علاوہ ماحولیات ،زراعت ، جنگلات اور اریگیشن کے محکموں کو فعال بنانا ہو گا ۔ عوامی سطح پر آگاہی بھی اتنی ہی ضروری ہے تاکہ لوگ خود بھی حساس مقامات پر رہائش اختیار کرنے سے گریز کریں اور درختوں کی افزائش اور حفاظت کو اپنا ذاتی فرض سمجھیں۔سیلاب سے بچاؤ کیلئے بین الاقوامی تعاون بھی انتہائی اہم ہے۔ گلوبل وارمنگ میں ہمارے دو ہمسایہ ممالک چین اور ہندوستان کا بہت بڑا حصہ ہے، جنکی وجہ سے سیلاب ، سائیکلون اور موسمی تغیریات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک سے تکنیکی معاونت حاصل کرے، ماحولیاتی فنانسنگ کے مواقع تلاش کرے اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں سے مدد لے کر ایک مضبوط دفاعی لائن بنائے۔ یہ کام صرف حکومتوں پر نہیں چھوڑے جا سکتے بلکہ نجی اداروں، تعلیمی حلقوں ، این جی اوز اور عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کیلئے صرف بیانات، اعلانات یا وقتی امداد کافی نہیں۔ ہمیں اپنی سوچ اور طرزِ عمل بدلنا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی، قدرتی وسائل کا تحفظ، شجرکاری ، گیسوں کے اخراج کو روکنے سمیت سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی ہی وہ راستے ہیں جن کے ذریعے ہم اس بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کے کئی علاقے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے، اور ہم صرف اپنی غفلت کے نوحے پڑھتے رہ جائیں گے۔

( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین