• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیڈ مرالہ کا شور محض پانی کا شور نہیں۔ یہ شور ایک صدیوں پرانا سوال ہے جسے ہر تہذیب نے اپنے اپنے عہد میں سنا اور اکثر نظر انداز کیا۔ جب بھی انسان نے دریا کو محض اپنی ملکیت سمجھنے کی کوشش کی تو دریا نے اپنی بغاوت سے جواب دیا۔ پانی کے یہ ریلے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فطرت کے قوانین سے انحراف کا نتیجہ ہمیشہ بستیوں کے تاراج ہونے اور تاریخ کی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔نو لاکھ بیس ہزار کیوسک کا بہاؤ کسی انجینئر کی فائل کا ہندسہ نہیں یہ بہاؤ اس لمحے کی علامت ہے جب انسان اپنی دانش اور محنت کو فطرت کے طوفان کے مقابلے میں حقیر پاتا ہے۔ آج ہم جسے ’’ریکارڈ‘‘ کہتے ہیں، وہ دراصل کل کی غفلت کا نوشتہ بھی ہے۔ دس لاکھ کیوسک کی حد کو چھوتے ہی ہمیں وزیر آباد اور گردونواح کے بند توڑنے کی بات کرنا پڑتی ہے۔ یہ فیصلے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی پائیدار بندوبست کیوں نہیں کیا؟ ہر بار قربانی کا بوجھ انہی غریب چرواہوں، کسانوں اور مزدوروں کے کندھوں پر کیوں ڈالا جاتا ہے جنکی زندگی کا سرمایہ ایک صحن، ایک ریوڑ یا ایک کھلیان سے زیادہ کچھ نہیں؟ بھارت نے اپنے ڈیموں کے دروازے کھول دیے۔ اطلاع ملی، لیکن اطلاع محض خبر ہی رہی۔ ہمارے پاس نہ بڑے ڈیم ہیں نہ بڑی نہریں کہ ہم ستلج یا راوی کے پانی کو روک سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پانی آیا اور بستیاں بہا لے گیا۔ پنجاب کے متاثرہ اضلاع سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ یہ مناظر صرف ہجرت کے نہیں بلکہ ایک اجتماعی زوال کی نشانی ہیں۔ انسان اپنے ہی مکان کے دروازے پر تالہ لگا کر نکلتا ہے اور جانتا ہے کہ جب لوٹے گا تو مکان مٹی میں مل چکا ہوگا۔ یہ سب کچھ نیا نہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب نے بھی پانی کے ساتھ یہی سبق سیکھا تھا۔اسی طرح موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات آج ہمیں بتاتے ہیں کہ جب پانی کے نظام پر قابو نہ پایا جائے تو تہذیب کے ستون ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کی کتابیں مصر کے دریائے نیل، چین کے یانگ ژی اور عراق کے دجلہ و فرات کے قصے سناتی ہیں۔ جہاں پانی کو سنبھال لیا گیا وہاں تہذیب نے عروج پایا، جہاں پانی بے قابو ہوا وہاں شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ آج ہمارا حال ان قوموں سے مختلف نہیں۔ ہم بھی پانی کو برکت سمجھتے ہیں لیکن اسکے نظم کے بغیر۔ یہی وجہ ہے کہ جب برسات شدت اختیار کرتی ہے تو وہی پانی ہمیں موت کی صورت میں گھیر لیتا ہے۔کشمیر سے اترنے والا دریائے توی اپنے راستے میں تباہی کا پیغام دے چکا ہے۔ اب وہی پیغام جلال پور جٹاں اور گجرات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کرتارپور میں سکھوں کا مقدس مقام بھی سات فٹ پانی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ ایک ہی وقت میں پنجاب کے چھ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔اسی طرح جنوبی پنجاب کے اضلاع خصوصاً لیہ اور اسکی تحصیل کروڑ میں دریائی کٹاؤ نے ہزاروں ایکڑ سونا اُگلتی زمین کو نگل لیا۔ وہ زمینیں جو کسانوں کی نسلوں کا سہارا تھیں، لمحوں میں ریت اور مٹی کا ڈھیر بن گئیں۔ بستیاں جو کل تک آباد تھیں، آج صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ حکومتی غفلت اور بدانتظامی نے اس کٹاؤ کو روکنے کے بجائے بڑھنے دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں لوگ دربدر ہوئے، اپنے گھر بار اور کھلیان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ۔’’لیہ تونسہ پل‘‘ جس کا افتتاح میاں محمد نواز شریف نے دوہزارسترہ میں کیاتھااوریہ پل 2019 میں مکمل ہوگیاتھالیکن اب اس حوالے سےالمیہ یہ ہے کہ پل سے متصل روڈ ز کی تعمیر سات برس سے فنڈ نہ ہونے اور این ایچ اے کی غفلت کے باعث رکی ہوئی ہے۔امسال پل کے سپر بند ٹوٹنے سے درجنوں بستیاں دریابرد ہوگئیں ۔دوسری جانب ملک بھر میں گزشتہ دو ماہ کے دوران سات سو ننانوے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ بھارت کے ڈیموں سے پانی کا اخراج اور انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی نے بحران کو بڑھا دیا ہے۔ اس سب پر ماحولیاتی تبدیلی کی وہ چھاپ ہے جو بارش کو شدت اور بے ترتیبی کے ساتھ برساتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دنیا کے سب سے بڑے مسائل پانی، آبادی اور ماحولیاتی تغیر ہمارے دروازے پر ایک ساتھ دستک دے رہے ہیں۔ مگر ہم اب بھی اس حوالے سے غفلت کا شکار ہیں۔یہ ریلا پنجاب اور خیبرپختونخوا سے ہوتا ہوا سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سندھ، جس نے برسوں ڈیم اور نہروں کی مخالفت کی آج اسی پانی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ قومیں اپنی بصیرت سے جیتی ہیں، اپنے انکار سے نہیں۔ دعا یہی ہے کہ سندھ کے لوگ اس حقیقت کو سمجھیں کہ پانی کو قابو میں لائے بغیر زندگی کو قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہیڈ مرالہ کا یہ شور دراصل ہماری اجتماعی غفلت کا مرثیہ ہے۔ پانی گزر جائیگا، بستیاں اجڑ جائیں گی، لوگ دوبارہ مکان بنالیں گےلیکن یہ ایک ابدی سچائی ہے اگر ہم نے اپنی غفلت اور کوتاہی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو آنے والا وقت ہمارے لیے مزید تباہی لائے گا۔

تازہ ترین