پاکستان میں سیلاب کا ذکر آتے ہی ذہن میں تباہی، ہلاکت اور انسانی المیے کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ یقیناً اس کا یہ پہلو حقیقت ہے، لیکن دیہی پس منظر رکھنے کی وجہ سے میں اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک سیلاب صرف عذاب نہیں بلکہ اس میں کچھ رحمتیں اور مواقع بھی پوشیدہ ہیں۔
انڈیا کی طرف سے پانی کا اخراج
حال ہی میں انڈیا نے اپنے ذخائر بھرنے کے بعد اضافی پانی چھوڑا اور باضابطہ طور پر پاکستان کو اطلاع دی۔ یہ بین الاقوامی پروٹوکول کے مطابق ہے جسے پاکستان نے بھی تسلیم کیا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے سوشل میڈیا نے اسے ایک’’الزام تراشی‘‘کے کھیل میں بدل دیا، بجائے اس کے کہ اصل مسئلے کے حل پر توجہ دی جاتی۔
مون سون بارشیں اور ان کی شدت
اس سال مون سون بارشیں اندازوں سے کہیں بڑھ کر ہوئیں۔ پہلے ماہرین نے 30فیصد زائد بارشوں کی پیش گوئی کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک بارشیں 124فیصد زیادہ ہو چکی ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسی غیر معمولی بارشوں اور اسکے نتیجے میں آنے والی آفات کو مکمل طور پر نہیں سنبھال سکتا۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈیم شہری اور دیہی علاقوں میں سیلاب روکنے کا حل نہیں ہیں۔ ان کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا، بجلی پیدا کرنا اور زرعی ضروریات پوری کرنا ہے۔ سیلابی تحفظ کیلئے الگ حکمتِ عملی درکار ہے۔
ندی نالوں کے باسیوں کی زندگی اور منگلا ڈیم کی محرومی
میرا تعلق دریائے جہلم کے قریب ایک گاؤں سے ہے جب یہ دریا منگلا ڈیم سے پہلے پوری طغیانی میں بہتا تھا۔ میرے رشتہ دار دریائے چناب کے تریموں ہیڈ ورکس پر آباد تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح چھوٹے کاشتکار ہر سال سیلاب سے نبرد آزما ہوتے اور اس کے ساتھ جینا سیکھ گئے تھے۔ وہ اپنے گھروں اور مویشیوں کو پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر لیتے اور پھر اطمینان سے انتظار کرتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ سیلاب ان کی زمینوں پر زرخیز مٹی کی تہہ بچھا جائے گا۔ ایک بڑا سیلاب اگلے تین چار سال کیلئے ان کی فصلوں کی ضمانت ہوتا تھا۔
منگلا ڈیم کی تعمیر نے ان علاقوں کے کاشتکاروں سے یہ قدرتی نعمت چھین لی۔ آج بھی وہ اسے کوستے ہیں کہ انہیں وہ مفت زرخیز پانی اور زرخیز مٹی نہیں ملتی جو کبھی ان کی زمینوں کو سنہری فصلیں دیا کرتی تھی۔
اب کیا کرنا چاہیے؟
•بند باندھ مضبوط کیے جائیں تاکہ رواں سال جیسے بڑے سیلاب کے دباؤ کو برداشت کر سکیں۔اسٹارم چینلز بنائے جائیں جو طوفانی پانی کو قابو کے ساتھ گزار سکیں اور صرف مخصوص مقامات پر پشتے توڑ کر پانی کو آگے بڑھائیں تاکہ بیراجوں کو نقصان نہ پہنچے۔•غیر قانونی تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔ دریاؤں کے کناروں پر رہائش اور تعمیرات سب سے زیادہ نقصان کا باعث بنی ہیں۔ افسوس کہ طاقتور طبقے قانون کو توڑتے ہیں اور حکومتیں بدترین منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر لاہور میں ایک سیاستدان کی ہائوسنگ سوسائٹی جو براہِ راست دریائے راوی کے کنارے آباد کی گئی۔ اسی طرح راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RUDA) بھی ایک ناقص اور خطرناک منصوبہ ہے۔موسم کی پیش گوئی پر مبنی منصوبہ بندی کی جائے۔ پہلے ہی اطلاع دی جا چکی ہے کہ اگلے سال مون سون کی بارشیں معمول سے پہلے شروع ہوں گی، اس لیے ابھی سے تیاری شروع کرنا ناگزیر ہے۔
اضافی حل برائے سیلابی انتظام
•واٹر شیڈ مینجمنٹ:قدرتی نکاسی کے راستے، دلدلی علاقے اور جنگلات بحال کیے جائیں تاکہ پانی کا بہاؤ سست ہو۔شہری نکاسی کا نظام بہتر بنایا جائے تاکہ اچانک بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کو سنبھالا جا سکے۔
•فلڈ زوننگ قوانین: سیلابی علاقوں کو باقاعدہ 'نو کنسٹرکشن زون قرار دیا جائے اور وہاں کی آبادی کو آہستہ آہستہ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔
•ایڈوانس وارننگ سسٹم: جدید ٹیکنالوجی، سائرن اور ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے بروقت انتباہ کیا جائے۔
•مقامی کمیونٹی کی شمولیت:دیہی آبادیوں کو عملی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔
•علاقائی تعاون:پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کو مشترکہ فریم ورک کے تحت ڈیٹا شیئرنگ اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
ایک دیہاتی کی رائے
میری عاجزانہ رائے ہے کہ سیلاب کو صرف عذاب نہ سمجھا جائے۔ اس میں قدرتی مواقع بھی پوشیدہ ہیںزرخیز زمینیں، قدرتی کھاد، اور انسانی عزم و برداشت کا سبق۔ اگر جدید سائنس کو دیہی دانش کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پاکستان نہ صرف سیلابی آفات پر قابو پا سکتا ہے بلکہ انہی سیلابوں کو اپنی خوشحالی اور ترقی کا ذریعہ بھی بنا سکتا ہے۔