• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے چچا، ڈاکٹر ایس ایم ابراہیم المعروف، اچھے بھائی

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ضرور ہوتی ہے، جو اپنے اچھے اخلاق وکردار اور اوصاف کی وجہ سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے چچا ڈاکٹر ایس ایم ابراہیم کا شمار بھی اُن ہی شخصیات میں ہوتا تھا۔ وہ رشتے میں میرے والد کے چچا زاد بھائی تھے، لیکن خاندان بھر میں ’’اچھے بھائی‘‘ کے نام سے پُکارے جاتے تھے۔ اچھے بھائی، خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار، دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ جانے والے، انتہائی نفیس اور لائق انسان تھے۔ اُن کی ساری زندگی فلاح و بہبود کے کاموں میں گزری۔ 

مَیں نے اپنی زندگی میں ایسا مخلص، ہم درد اور دوسرے کے لیے جینے والا انسان نہیں دیکھا۔ اُن کی سخاوت و عنایات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ اللہ نے شاید انہیں پیدا ہی ان کاموں کے لیے کیا ہے۔ اگر کوئی ضعیف یامعذور اُن کے مطب آنے سے قاصر ہوتا، تو خود ہی بغیر کسی اضافی معاوضے کے فوراً سائیکل کے کیریئر پرمیڈیکل باکس رکھ کر مریض دیکھنے پہنچ جاتے۔

اچھے بھائی، فنونِ لطیفہ اور ادب سے بھی خصوصی دل چسپی رکھتے تھے، اُن کا حلقہ احباب نام وَر شاعروں، ادیبوں پر مشتمل تھا، جن میں راغب مرادآبادی، آغا ناصر،شاہد احمد دہلوی، سابق اسپیکر مبین الحق صدیقی، تشنہ بریلوی، ڈاکٹر اقبال یاد (بانی ٹی بی سینی ٹوریم، اوجھا) وغیرہ شامل تھے۔ 

ہر ہفتے اُن کے مطب میں باقاعدگی سے ادبی محفل سجتی۔ بذلہ سنجی اُن کے مزاج کا ایک اورلازمی جُز تھا، حالاں کہ اندر سے ٹوٹے ہوئے اور زخمی تھے، لیکن کبھی اپنا دُکھ یا پریشانی کسی پر ظاہر نہ ہونے دیتے۔ میری چچی خالہ سے اُن کی شادی پاکستان ہجرت سے کچھ ماہ پہلے بھارت میں ہوئی تھی۔ 

شادی کے فوراً بعد ہجرت کے دوران چچی نے خون کا دریا پار کرتے ہوئے لرزہ خیز مناظر کا اتنا گہرا اثر لیا کہ پاکستان آتے ہی شدید علیل ہوگئیں، بیماری کے دوران اچھے بھائی نے اُن کا بے حد خیال رکھا، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکیں اور شادی کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہی اس دارِفانی سے کُوچ کرگئیں۔ چچی کےانتقال کے بعد انہوں نے شادی نہیں کی اور پوری زندگی سماجی، فلاحی و ادبی سرگرمیوں میں گزار دی۔1994ء میں اُن کا انتقال بھی حادثاتی طور پر ہوا۔ 

اپنے کسی پرانے دوست کے یہاں بیٹھے تھے، جہاں دیگر لوگ بھی موجود تھے اور سیاسی بحث جاری تھی کہ کسی بات پر بہت زیادہ اشتعال میں آگئے اور اسی وقت ان پر فالج کا زبردست حملہ ہوگیا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اُن کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں ادب و فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ اقبال نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہے کہ ؎ بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)