مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(محمّد عاصم بٹ)
وہ اپنے اندر ہی اندر کسی جنگ میں مصروف تھی۔ وہ بیٹھے بیٹھے کرسی پر آگے ہوگیا۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایسے وقت میں وہ عورت کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ پھر وہ عجلت میں کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ عورت مکمل طور پر اپنے گھٹنوں پرجھک گئی تھی، پھر دفعتاً جھٹکے سے اُس کا جسم بلند ہوا اور کرسی کی چوبی پشت پر جاگرا۔
وہ یک سرساکت تھی اور اُس کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہوئی تھیں۔ وہ سانس نہیں لے رہی تھی۔ زندگی اور موت کے بلی اور چوہے جیسے کھیل میں زندگی شکست کھا چُکی تھی۔ اُس نےعورت کی کلائی تھامی۔ اُس کی نبض خاموش تھی۔
اِس کے باوجود کہ موت ایک واضح طور پر سمجھ میں آنے والا سادہ قدرتی مظہر ہے، اُسے یہ حقیقت ماننےمیں کچھ وقت لگاکہ ایک عورت جو ابھی زندہ سامنے بیٹھی اُس سے محوِکلام تھی، اب کرسی پرمُردہ پڑی تھی۔ اُس نے اُسے بازوؤں میں اُٹھایا اور صوفے پر لٹا دیا۔ وہ دبلے پتلے جُثّے کی عورت تھی، لیکن شاید موت نے اُس کے وزن میں اضافہ کر دیا تھا۔
کرسی سے صوفے تک لے جاتے ہوئے وہ باقاعدہ ہانپنے لگا۔ اُسے فوری طور پر کسی نہ کسی کو اس واقعے کی خبرکرنی چاہیے۔ اُس نےسوچا۔ فوری طبّی امداد فراہم کرنے والے کسی ادارے کو یا اگر کوئی گھر میں موجود ہو تو اُسے۔ اُس نے عجلت میں گیلی جرابیں اور جوتے پہنے، جو بس معمولی سے خشک ہوئے تھے۔ ٹیلی فون کی تلاش میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ وہ اُسے بغلی کمرے میں ایک تپائی پررکھا دکھائی دیا۔ وہ چند قدم ٹیلی فون کی سمت بڑھا ہوگا کہ اُسے اوپر چھت پرکچھ کھٹکا سنائی دیا۔ جیسے بالائی منزل میں کوئی تھا۔ کسی نےکوئی شے سرکائی تھی۔
ایک طویل اور چوڑے برآمدے سے، جو نیم تاریکی کی چادر لپیٹے ہوئے تھا، پرے سُرخ قالین سے ڈھکی ہوئی سیڑھیوں والا زینہ موجود تھا، جس کےاطراف میں چوبی کٹہرا بنا ہوا تھا، جو زینے کے ساتھ ساتھ بل کھاتا ہوا اوپر کی منزل کو جاتا تھا۔ اپنی ساخت میں یہ کسی پرانی مگر غیرآباد حویلی کا زینہ معلوم ہوتا تھا۔ یہ لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اُس پر چلتے ہوئے اُسے اپنے قدموں کی واضح دھپ دھپ گونجتی سنائی دی۔ جیسے زینے کے نیچے کوئی گہرا پوشیدہ خلا موجود ہو۔ یہ مختصر بل دار زینہ اُسے میلوں لمبی مسافت کے برابر معلوم ہوا اور وہ اُس کے آخر تک پہنچتے ہوئے ہانپ کر رہ گیا۔
اوپر دائیں جانب طویل راہ داری تھی، جس کے اطراف مختلف کمروں کے بند دروازے دکھائی دیتے تھے۔ فرش پر دبیز اور نرم قالین بچھا تھا۔ سارے میں گہری خاموشی اور نیم اجالا سا پھیلا تھا۔ ایک طرف دیوار سے لگا کم واٹ کا زرد روشنی والا بلب جل رہا تھا۔ ایک کمرے کے دروازے کا ایک پٹ معمولی سا کُھلا تھا، جس میں سے باہر آتی روشنی کی زرد اور مہین لکیر فرش پر لیٹی سستا رہی تھی۔ کمرے سے کاغذوں کے الٹنے پلٹنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
وہ سرعت سےآگے بڑھا اور دروازے کے پٹ پر دباؤ ڈالا، وہ فرش سے رگڑ کھاتا ہوا معمولی سا کُھل گیا۔ اُسے اندر داخل ہونے کا راستہ مل گیا۔ بائیں جانب میز اور کرسی پڑی تھی، جس پر ٹیبل لیمپ کی روشنی کا ہالہ سا بنا تھا۔ پینسٹھ، ستّر برس کا ایک شخص آنکھوں پر چشمہ لگائے بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ نچلی منزل میں مُردہ پڑی عورت سے اُس شخص کی مشابہت غیرمعمولی تھی۔ اُسے اندر آتے دیکھ کر اُس شخص نے قلم میز پر ڈال دیا اور اُس کی جانب رُخ کر کے ایک ٹک اسے تکنے لگا۔
چند ثانیےخاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہنےکے بعد وہ بولا۔ ’’سرمعذرت خواہ ہوں۔ بلا اجازت آگیا۔ نیچےایک خاتون مُردہ پڑی ہیں۔ آپ کچھ زحمت کیجیے اور میرے ساتھ آئیے۔‘‘ اُس شخص نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نہ کوئی تاثر ہی اُس کے چہرے پر ظاہر ہوا۔ اُس نے البتہ ردعمل کے طور پر اپنا چشمہ اتارکر کُھلی کتاب پر، جومیز پردھری تھی، ڈال لیا۔ پھر کچھ توقف کے بعد بولا۔ ’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’مَیں اپنے بارے میں آپ کو سب کچھ بتادوں گا۔ میرا نام حمید ناصر ہے۔ ایک لیکچرار ہوں۔ فی الوقت آپ کا میرے ساتھ نیچے آنا ضروری ہے۔ وہ عورت شاید آپ کی رشتے دار تھیں۔‘‘ ’’مَیں نہیں سمجھ سکا کہ آپ کون ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ ’’مَیں کسی بُری نیّت سے نہیں آیا۔ بارش کی وجہ سے ٹیکسی خراب ہوگئی تھی، تو لفٹ لینے کے لیے یہاں آنکلا۔ وہ خاتون میرے سامنے باتیں کرتے ہوئے فوت ہوگئیں۔ یا ہو سکتا ہے، ابھی زندہ ہوں اور اُنھیں بچایا جا سکتا ہو۔‘‘ ’’کس خاتون کی بات کررہے ہیں آپ؟ یہاں کوئی خاتون نہیں رہتیں۔
آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘ ’’مَیں آپ کو ساری بات بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے ہمیں نچلی منزل میں اُس خاتون…‘‘ ’’دیکھیے…‘‘ اِس بار اُس شخص کے لہجے میں معمولی سختی اور بےزاری کے آثار واضح تھے۔ ’’آپ ایک ہی بات کی رٹ کیوں لگائے ہوئے ہیں۔ مَیں نے کہا ناں کہ یہاں کوئی عورت نہیں رہتی۔ نہ ہی آپ یہ بتانے پر تیار ہیں کہ آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘پھر کچھ توقف کے بعد بولا۔ ’’خیر، جب کہ آپ یہاں آ چُکے ہیں، تو تسلی کے ساتھ بیٹھ کر بتائیے کہ آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘
وہ دروازے کے برابر ہی پڑے ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر ہونّقوں کی طرح بٹربٹر اپنے پیروں کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد مختصر الفاظ میں اُس نے یہاں اپنی آمد کی غرض و غایت اور پیش آمدہ واقعات کی رُوداد بیان کی۔ ’’آپ کے بیان کردہ واقعات میں اِس بات کے سوا سب سچ مانا جاسکتا ہے کہ آپ یہاں نیچے کسی عورت سے ملے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس گھر میں کوئی تہہ خانہ نہیں ہے کہ نیچے کی منزل کا تصور کیا جا سکے۔ یہ ایک منزلہ مکان ہے۔ نہ ہی اِس کے اوپر کوئی منزل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں اِس وقت مَیں اکیلا ہوں یا اب آپ میرے ساتھ ہیں۔ ہم دونوں کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ مَیں ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے، لیکن اِس وقت وہ اپنے کسی دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں گیا ہوا ہے۔ دیر سے آئے گا۔ آج موسم صُبح سے خراب ہے۔ یا آپ چاہیں تو اِسے خوش گوار موسم کہہ لیں۔ میری عُمر کو پہنچ کر انسان بیماریوں کے چُنگل میں پھنس جاتا ہے۔ کسی بھی شے کا مزہ باقی نہیں رہتا۔ خاص طورپر جب کہ بیماریاں موروثی ہوں۔‘‘
پھر وہ کھانسنے لگا، جیسے اپنی بات ثابت کرنا چاہتا ہو کہ وہ واقعی بیمار ہے۔ مسلسل کھانسی سے اس کے چہرے کے اعصاب تن گئے اور آنکھیں سُرخ ہوگئیں۔ وہ کھانستے ہوئے بار بار دہرا ہوجاتا، حتیٰ کہ ہانپنےلگا۔ اُس کا نچلا جبڑا یوں نیچےتک ڈھلک آیا تھا، جیسے کوئی بے جان عضو ہو۔ سینے سے سیٹی کی تیز آواز برآمد ہو رہی تھی، جو واضح طور پر بتاتی تھی کہ اُسے دَمہ تھا۔ کچھ دیر کھانسنے کے بعد اُس کی طبیعت سنبھلی تو بولا۔ ’’آپ بیٹھ جائیے۔ ہمیں اطمینان کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔
شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ بوڑھا پروفیسر خاموش ہوا تو وہ بولا۔ ’’مَیں ابھی اُس خاتون سے ملا ہوں۔ نیچے، میرا مطلب ہے کہ ڈرائنگ روم میں اُن کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اُن کا ایک بیٹا ہے، جس کا نام شاید ریاض احمد ہے اور وہ لیکچرار ہے اور ڈاکٹریٹ کررہا ہے۔ اپنی ماں کے لیے بازار سے دوائیں لینے گیا ہوا ہے۔ ہم اُس کا انتظار کر رہے تھے کہ یہ واقعہ ہوا۔
شاید مَیں اُنہیں بچا سکتا تھا۔ مَیں ٹیلی فون کرنے بھاگا تو سیڑھیاں دکھائی دیں۔ اب مَیں اوپر ہوں۔ یا…‘‘ پھر وہ سر جُھکا کرخُود ہی کچھ بڑبڑانے اور سوچنے لگا، جیسے اپنی ہی کہی ہوئی باتوں پر غور کر رہا ہو۔’’آپ نے نام صحیح بتایا۔‘‘ وہ شخص بولا۔ اور بیٹھے بیٹھے کروٹ بدلی۔ ’’میرا نام ریاض احمد ہے۔
پی ایچ ڈی مَیں نے تیس سال پہلے کی تھی۔ پچھلے سال یونی ورسٹی سے ریٹائر ہوا ہوں۔ آپ کی بات سے برسوں پہلے کا ایک تلخ واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہوا ہے۔ ایسا ہی دن تھا۔ تیز بارش ہو رہی تھی۔ میری والدہ کی طبیعت ایسے موسم میں بگڑجاتی تھی۔ اُنہیں بھی دَمے کا مرض تھا۔ یہ ہمارا خاندانی مرض ہے۔ تب میں اپنے پی ایچ ڈی کے کام میں اتنا رجھا ہوا تھا کہ دھیان ہی نہیں رہا کہ اُن کی دوائیں ختم ہوگئی تھیں۔ وہ وینٹولین اِن ہیلر استعمال کرتی تھیں۔
وہ بازار میں شارٹ تھا۔ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی۔ میکینک ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگا۔ واپس آیا تو والدہ کو صوفے پر مُردہ پایا۔ اِس بات کے لیے مَیں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکا کہ آخری وقت میں اُن کے پاس نہیں تھا۔ شاید اُن کو بچایا جا سکتا تھا۔ ضرور اُنہوں نے آخری وقت میں مجھے پکارا ہوگا۔ وہ مجھے آخری بار دیکھنے کی خواہش دل میں لے کر چلی گئیں۔ میری غفلت نے اُن کی جان لے لی…‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس کی آواز بھاری ہو گئی اور وہ چُپ ہوگیا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے پھر سے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن اس کے گلے سے بس خرخراہٹ آمیز آواز ہی نکل پائی۔ پھر اُس نے حمید ناصر کی طرف دیکھا۔ بالکل خالی نظروں کے ساتھ اور بچّوں کی طرح ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ تادیر یہی کیفیت رہی۔ پھر اُس کی طبیعت سنبھلی تو بولا۔ ’’میرا بیٹا بی اے میں پڑھتا ہے۔ اُس کا دھیان پڑھائی میں نہیں لگتا۔ ماں ہوتی تو ذرا کھینچ کے رکھتی۔ مائیں ہی پڑھاتی ہیں، بچّوں کو۔ بہت سال پہلے وہ ایک ایئرکریش میں ہلاک ہوگئی تھی بے چاری۔ میری آٹھ سال کی بیٹی بھی اُس کے ساتھ تھی۔
دونوں ہی ہلاک ہوگئیں۔ ہمیں تو اُن کی لاشیں بھی نہیں ملیں۔ ایک دُکھ سے دوسرے دُکھ کی تار بندھی ہوتی ہے۔ بیس سال ہوگئے، اِس منحوس واقعےکو۔ لیکن جب بھی یاد آتا ہے، سارے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنی ماں سے ملنے جارہی تھی۔ مَیں نے ہی ضد کی کہ بیٹے کو میرے پاس چھوڑجائے۔ پتا ہوتا کہ کیا ہونے والا تھا، تو دونوں بچوں کو اور اُسے بھی روک لیتا۔ انسان کے بس میں ہوتا تو خیر…کسی بھی واقعےکوکبھی نہ ہونے دیتا۔ بس اُن کی آئی ہوئی تھی۔‘‘ اُس نے سرد آہ بھری اور سر جُھکا کر خاموشی سے کچھ سوچنے لگا۔ اُس کے بال دودھ جیسے سفید تھے اور درمیان میں صاف شفاف گول ٹکیہ سی چندیا دکھائی دیتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب سر جُھکائے کچھ دیر یونہی مراقبے میں رہے، تو وہ پکار کر بولا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ ڈاکٹر ریاض احمد نےسراُٹھایا اور گہری سانس بھری۔ ایک ہاتھ دل کے مقام پر سینے پر رکھے، وہ دوسرے سے منہ ڈھانپے ہوئے کھانس رہے تھے۔ پھر کھانستے ہوئے دہرے ہوگئے۔
وقفے وقفے سے اُن کا جسم مرگی کے مریض کی طرح جھٹکے کھاتا۔ ہولے ہولے جیسے آواز ان کے گلے میں اندر ہی کہیں گم ہو گئی۔ وہ اپنے اندر کسی طرح کی جنگ میں بُری طرح الجھے ہوئے تھے۔ ’’میرا اِن ہیلرشاید بیڈ روم میں ہوگا۔‘‘ گھٹی ہوئی آواز میں بس اتنا ہی وہ کہہ پائے اور خاموش ہوکرسانس لینے کی کوشش کرنے لگے، جس میں اُنھیں کام یابی نہیں ہو رہی تھی۔
وہ یہ جنگ جیت نہیں سکے۔ ایک زبردست جھٹکے کے نتیجےمیں وہ پہلے کچھ اوپر اٹھے اور پھر ان کی گردن گھٹنوں سے سرکتی ہوئی کرسی کی ہتھی سے جا ٹکرائی اور وہیں ٹکی رہی۔ اُن کی آنکھیں شدید کرب سے پتھرا کر خلا میں کسی ایک نقطے پر جم کر رہ گئی تھیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ وہ مر چُکے تھے، اُسے اُن کی نبض دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ حواس باختگی کے ساتھ مونڈھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اُسے لگا، ایک دم سے جیسے اُس کے دماغ نے کام کرنا موقوف کردیا ہو۔
وہ سرعت سے بھاگتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔ راہ داری سے ہو کر زینے سے نیچے اُترا۔ باہر دروازے کی دہلیز پر اُس کا چرمی تھیلا اور چھاتا جُوں کا تُوں پڑا تھا۔ اُنہیں اٹھا کروہ تیزی سےبھاگتا ہوا باہر سڑک پرآیا۔ بارش تھم چُکی تھی۔ سڑک پر ٹریفک جاری ہوچُکی تھی۔ اُسے آسانی سے ایئرپورٹ تک کے لیے ٹیکسی مل گئی۔
کلکتہ میں پندرہ روزہ قیام اُس کا بہت مصروفیت میں گزرا۔ اُس نے کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھا۔ ممتاز ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔ شہر کے تہذیبی دورے کیے۔ لیکن اِس تمام عرصے میں ایک لمحے کے لیے بھی اُن واقعات کی یاد اُس کے ذہن سے محو نہیں ہوئی، جو اُس بارش والے دن اُسے پیش آئے تھے۔
واپس اپنے شہر پہنچ کر اُس نے ٹیکسی ڈرائیورکواُسی گلی کے سرے پر رُکنے کو کہا، جہاں سے اُسے سفیدے کا درخت صاف دکھائی دے رہا تھا۔ گھر کی باہری دیوار پر گھنٹی کے بٹن کے برابر ایک سفید چوڑی تختی پر سیاہ جلی حروف میں ڈاکٹر ریاض احمد لکھا تھا۔ پستہ قد چوبی دروازے پر سبز روغن کیا گیا تھا، جو اپنی چمک میں تازہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے چھوا جائے تو انگلیوں کی پوروں پر اُتر آئے گا۔ برابر ہی ڈیلیا کی بیل تھی۔
سستانے کے انداز میں دیوار پر لیٹی اور نیچے لٹکتی ہوئی۔ عقب میں پاپلر کا بلند قامت درخت اس منظر میں بہت مانوس معلوم ہورہا تھا۔ صدر دروازے سے رہائشی عمارت تک راستہ پختہ کرکے اُس پر سیمنٹ اور بجری کا فرش بچھادیا گیا تھا۔ اُس نے گھنٹی کا بٹن دبایا۔ اُسے اندرکہیں گھنٹی کی مدھم ٹرن ٹرن سُنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد رہائشی عمارت کا دروازہ کُھلا اور ایک چھے سات برس کی بچّی سرخ اور سفید رنگ کی شرٹ اور اسکرٹ پہنے ہوئے برآمد ہوئی۔
وہ دروازے کے ہینڈل سے لٹکی ہوئی جھولتی اور باہر دروازے کی طرف تکتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دروازے سے کچھ قدموں کے فاصلے پر آکر کھڑی ہوگئی۔ ’’آپ کو کس سے ملنا ہے…انکل؟‘‘ ’’آپ کے ڈیڈی سے۔ گھر پر ہیں کیا؟‘‘ ’’ڈیڈی…ڈیڈی… انکل آئےہیں۔‘‘ وہ شور مچاتے ہوئے واپس بھاگی۔ ایک پنتالیس پچاس برس کا سنجیدہ رُو مرد آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے رہائشی عمارت سے برآمد ہوا۔ وہ ڈاکٹرریاض احمد ہی تھے۔
اُن کے بال کھچڑی ہورہے تھے اور اُن میں سفید اور سیاہ بالوں کی تاریں آپس میں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔ دروازے کے قریب آکر ڈاکٹر صاحب نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا، تو جیسے وہ چونکا۔ چند ثانیے اُس سے کسی بات کی توقع میں چُپ رہنے کے بعد ڈاکٹر ریاض احمد بولا۔ ’’جی… آپ کو کس سے ملنا ہے؟‘‘ ’’آپ ہی سے ڈاکٹر صاحب۔‘‘ وہ بولا۔ اُسے اپنی یہ توقع نہایت فضول معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کسی لمحے اُسے پہچان لیں گے۔ ’’جی فرمائیے۔ آپ ایڈووکیٹ الطاف اسد تو نہیں ہیں۔‘‘’’جی نہیں۔ اصل میں مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ ’’کیا اِس وقت ضروری ہے؟‘‘ ’’ڈاکٹر صاحب! مَیں ایک لیکچرار ہوں اور ایک اہم معاملے پر آپ سے مشورہ چاہتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا۔ اُس کی بیٹی اُس کی ٹانگوں سے لپٹی غور سےانکل کو دیکھ رہی تھی۔ ’’اِس وقت آپ سےمعذرت چاہوں گا۔ گھریلو مصروفیت کچھ ایسی ہے کہ آپ کے لیے وقت نہیں نکال سکتا۔ آپ کوئی پانچ منٹ بعد آتے، تو مجھے گھر میں نہ پاتے۔ مَیں اپنی بیوی اور بچّی کو ائیرپورٹ چھوڑنے جارہا ہوں۔ یہ شرارتی اپنی نانی کے گھر جارہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے بچّی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اور بچّی کو محبّت بھری مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اصل میں…‘‘وہ کچھ کہتا کہتا رُک گیا۔
ایک لمحے کے لیے اُس کا جی چاہا کہ ڈاکٹر کے پیروں میں گرجائے اور معصوم بچّی کی زندگی کی بھیک مانگے۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ اُسے لگا، جیسے اُسے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ وہ کسی طرح کے طے شدہ نظام کو آلودہ کرنے کی نجس کوشش کررہا تھا۔ کچھ بھی اُس کے اختیار میں نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ اس منظر سے نکل جائے، جس کا وہ حصّہ نہیں تھا۔ اور اس تجربے کو بیان کرنے سے احتراز کرے، جس میں وہ وقت کی کسی غلط چال کے باعث شامل ہوگیا تھا۔
ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ’’اگر آپ شام کو کسی وقت تشریف لائیں، تو اطمینان سے گفت گو ممکن ہو سکے گی۔‘‘ اُس نے ڈاکٹر سے مصافحہ کیا اور لوٹ آیا۔ گیٹ سے نکلتے ہوئے اُس نے دیکھا۔ بچّی بدستور باپ کی ٹانگوں سے لپٹی اُسے دیکھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں معصومیت سے لب ریزمسرت کی چمک تھی اور وہ مُسکرا رہی تھی ، شاید اُس کی بے بسی پر۔