• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی سیاست میں قیادت کا انداز اکثر تقریروں یا سرخیوں سے نہیں ناپا جاتا بلکہ جسمانی زبان سے سمجھا جاتا ہے۔ سر جھکانے کا زاویہ، مصافحے کی گرمی، انکسار اور وقار کا توازن یہ باریک اشارے بتاتے ہیں کہ کوئی رہنما برابر کا شریک ہے، چیلنجر ہے یا ماتحت۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس نازک فن کو سیکھ لیا ہے۔ جب وہ شی جن پنگ، ولادیمیر پیوٹن، رجب طیب اردوان، آذربائیجان کے الہام علییف یا بھوٹان اور بیلاروس کے صدور سے ملتے ہیں تو ایک ہی فارمولہ دکھائی دیتا ہےحد سے زیادہ قربت کے بغیر گرمجوشی، غلامی کے بغیر احترام اور غرور کے بغیر وقار۔ان کی سفارتکاری نفسیاتی ہےکہ اتنا احترام اور گرمی پیدا کرو کہ اعتماد خرید لو، ساتھ ہی استحکام کا تاثر دو۔پاکستان جیسے ملک کیلئے، جسے معاشی کمزوری اور اسٹرٹیجک دشمنی کا سامنا ہے، یہ سب بناوٹ نہیں بقا ہے۔

پاکستان آج کئی محاذوں پر بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔معاشی کمزوری: آئی ایم ایف پر انحصار، بھاری قرض، مستقل عدم استحکام۔اسٹرٹیجک دباؤ: بھارت کی معیشت آٹھ سے دس گنا بڑی ہے اور دہلی مضبوط پاکستان نہیں بلکہ کمزور، ٹکڑوں میں بٹے پڑوسی کو چاہتاہے تاکہ بھوٹان یا نیپال کی طرح قابو میں رکھا جا سکے۔آبی جنگیں: دریائے سندھ کا نظام متنازع ہے اور مستقبل میں قلت وجودی خطرہ بن سکتی ہے۔جغرافیائی شطرنج: گوادر، سی پیک اور خلیجِ عرب پاکستان کو لیوریج بھی دیتے ہیں اور ہدف بھی بناتے ہیں۔

پھر بھی حیرت انگیز طور پر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسکا سب سے بڑا سفارتی اثاثہ ہے۔ چین، بھارت، وسطی ایشیا اور خلیج کے سنگم پر، روس، آذربائیجان اور ایران سے تاریخی تعلقات کے ساتھ، پاکستان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ آرمینیا، جسے پاکستان نے طویل عرصہ تسلیم نہیں کیا تھا، آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد اب سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ہیں۔

اس کے برعکس عمران خان کو دیکھیے۔ وہ سیاست میں کرکٹ کی شہرت لے کر آئے، جہاں تعریف و توصیف کی عادت تھی۔ لیکن عالمی سیاست میں کرشمہ سرمایہ نہیں ہوتا۔

آئی ایم ایف سےسنجیدہ مذاکرات کے بجائے انہوں نے کاغذ کے شیر اور کرکٹ کی کامیابیوں کے استعارے پیش کیے۔ آئی ایم ایف کے عہدیدار غیر متاثر ہوئے، وہ سنجیدہ اعداد و شمار چاہتے تھے، کھیل کی باتیں نہیں۔سی پیک کے حوالے سےان کی حکومت نے خفیہ چینی قرضوں کے معاہدے آئی ایم ایف کو دے دیے۔ بیجنگ کیلئے یہ اعتماد توڑنے کے مترادف تھا۔

انہوں نے مہاتیر محمد اور اردوان کے ساتھ مل کر سعودی قیادت میں او آئی سی کو چیلنج کرنےکیلئے متوازی میڈیا بلاک بنانے کی کوشش کی۔ جب ولی عہد محمد بن سلمان نے اعتراض کیا تو فوج کو حکم دیا گیا کہ خان کو جانے سے روکیں۔ ریاض کی ناراضی فیصلہ کن ثابت ہوئی۔عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں اکثر ایسے پیش آئے جیسے وہ ان کے برابر یا برتر ہیں۔

عمران خان کی ناکامی صرف ملکی سیاست نہ تھی یہ نفسیاتی تھی۔ انہوں نے سیلیبریٹی کشش کو ریاستی اعتبار سمجھ لیا۔

طاقت کے اشارے:سفارت کاری اکثر الفاظ کی نہیں بلکہ طرزِ عمل کی زبان بولتی ہے۔ عرب دنیا، چین اور ترکی جیسے خطوں میں طاقت کے سامنے کچھ غیر لکھے ہوئے اصول ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا۔ انگلی اٹھا کر بات نہیں کی جاتی۔ حکم دینے یا ڈانٹنے کے انداز میں بات کرنا بدتمیزی سمجھا جاتا ہے، وقار نہیں۔عمران خان نے یہ نفسیاتی اصول کبھی نہیں سمجھے۔ شاہ سلمان کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ بار بار انگلی اٹھا کر بات کرتے رہے۔ ریاض میں اسے گستاخی اور تکبر سمجھا گیا۔ دوسری ملاقاتوں میں بھی ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ برابر نہیں بلکہ برتر ہوں۔اسی لیے پسِ پردہ سعودی عرب، چین اور ترکی تک نے پاکستان کے مقتدر حلقوں کو پیغام دیا کہ عمران خان کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں۔ وہ اپنی پالیسیوں سے نہیں بلکہ اپنے تکبر بھرے اشاروں سے Persona non grata بن گئے۔اس کے برعکس شہباز شریف ان غلطیوں سے بچتے ہیں۔ وہ وقار کے ساتھ بیٹھتے ہیں مگر کبھی چیلنج کرنے کے انداز میں نہیں۔ ان کا احترام اس طرح جھلکتا ہے جیسے وہ سنتے ہیں، ہاتھ رکھتے ہیں، لہجے کو تولتے ہیں۔ یہی ہے بقا کی سفارت کاری گرمجوشی مگر تکبر کے بغیر۔

شہباز شریف کا سفارتی انداز:اس کے برعکس شہباز شریف سادہ مگر مؤثر ہیں۔ وہ اردوان سے گرمجوشی سے ملتے ہیں، شی سے احترام کے ساتھ، پیوٹن سے سنجیدگی سے، علییف سے یکجہتی کے ساتھ، بھوٹان یا بیلاروس کے رہنماؤں سے یکساں عزت کے ساتھ۔ ان کے انداز کی مستقل مزاجی نمایاں ہے: کوئی ڈرامہ نہیں، کوئی سیلیبریٹی انا نہیں۔ان کا پیغام خاموش مگر طاقتور ہےکہ پاکستان اسٹریٹیجک طور پر اہم ہے۔پاکستان دشمنی نہیں، دوستی چاہتا ہے۔پاکستان قابلِ بھروسہ شراکت دار ہو سکتا ہے اگر عزت دی جائے۔اسی لیے، معاشی کمزوری کے باوجود پاکستان اب بھی اعلیٰ ترین سطح پر ملاقاتیں حاصل کر لیتا ہے۔ بیجنگ سے باکو تک، سب جانتے ہیں کہ پاکستان اہم ہے اور شہباز کا لہجہ اس اہمیت کو زیادہ قابلِ قبول بناتا ہے۔

اسٹرٹیجک نتائج:آذربائیجان و آرمینیامیں امن معاہدے کے بعد پاکستان نے پہلی بار آرمینیا سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ایران جو طویل عرصہ بھارت کے قریب رہا، اب اسلام آباد میں ایک متوازن شراکت دار دیکھ رہا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میںشی، پیوٹن، اردوان اور وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھنے سے پاکستان یوریشیائی زندہ بچ جانے والے کلب کا حصہ بنا رہتا ہے۔

نفسیاتی سبق:شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ کمزور ریاست تکبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ اس کی طاقت انکسار، گرمجوشی اور بھروسے میں ہے۔ ان کی سفارتکاری احترام کے ذریعے بقا ہے۔

عمران خان نہ سمجھ پائے کہ اعتماد کے بغیر شوخ و شنگ انداز مہلک ہے۔ انہوں نے بھروسے کے بجائے خود پسندی دکھائی۔ کمزور اتحادوں کے ماحول میں یہ خودکشی تھی۔

پاکستان کو آج ایسا رہنما نہیں چاہیے جو ریاستوں کے درمیان سیلیبریٹی بن کر چلے۔ اسے ایسا رہنما چاہیے جو باوقار زندہ بچنے والا ہو، سننے والا، عزت دینے والا، پُرسکون۔شہباز شریف کی سفارتکاری دکھاتی ہے کہ ایک کمزور ملک بھی وقار اور احترام سے اپنی اہمیت برقرار رکھ سکتا ہے۔ عمران خان کا ریکارڈ دکھاتا ہے کہ ایک کرشماتی شخص بھی ملک کی ساکھ تباہ کر سکتا ہے اگر وہ انا اور غیر ذمہ داری دکھائے۔پاکستان بھوٹان نہیں ہے، نہ کبھی نیپال ہو گا۔ اس کا جغرافیہ بہت زیادہ اہم ہے۔ لیکن صرف جغرافیہ کسی قوم کو نہیں بچاتا۔ قیادت بچاتی ہے۔ اور قیادت کی اصل زبان جسمانی زبان ہے وقار، انکسار اور اعتماد کی خاموش زبان۔

تازہ ترین