شنگھائی تعاون تنظیم کا حالیہ 25واں سربراہی اجلاس چائنا کے شہر تیانجن میں ہوا جو تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا اجلاس تھا،اس میں بیس ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انڈین پرائم منسٹر نریندرمودی سات برس بعد شریک ہوئے اس سے پہلے وہ اپنے نمائندوں کو بھیجتے رہے ہیں۔ مودی کی آمد اس لیے بھی اہمیت کی حامل تھی کہ حالیہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے انڈیا پرجو پچاس فیصد ٹیرف لگایا ہے اس سے انڈیا اور امریکا کے تعلقات میں اچھی خاصی سردمہری آگئی ہے انڈیا کو امریکا کا قریب ترین اتحادی مانا جاتا رہا ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کو ایک طرح سے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے بالمقابل طاقتور تنظیم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا بنیادی سلوگن ہی یہ ہے کہ چائنا کی ابھرتی طاقت کو کسی بھی طرح دبایا جائے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تیانجن سمٹ کو ناپسند کرتے ہوئے اسے محض نمائشی کاروائی قرار دیا ہے، چائنا اور رشیا کی مشترکہ خواہش رہی ہے کہ انڈیا امریکی اتحادی بننے کی بجائےان کی قربت میںرہے جیسے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ’’ورلڈ آرڈر کے نام پر غنڈہ گردی اور دھمکی آمیز رویہ قابلِ مذمت ہے‘‘اس میں اگرچہ انہوں نے امریکا کانام نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ واضح تھا، چینی صدر نے مغرب پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس کی بالادستی اور طاقت کی سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر باہمی اتفاق رائے کو فروغ دیں ایک دوسرے کے دوست اور پارٹنر بنیں۔ صدر شی نے انڈیا چائنا تعلقات کی مثال دیتے ہوئےکہا کہ بلاشبہ ہمارے سرحدی تنازعات بھی ہیں لیکن ان معاملات کو ہمارے مجموعی تعلقات پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ایک دوسرے کی کامیابی کیلئے اچھے پارٹنر ہیں ہم اپنے تجارتی تعلقات کے حجم کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں، ڈریگن اور ہاتھی کے مشترکہ رقص کی طرح تعاون و اتحاد ضروری ہے۔پاکستانی پرائم منسٹر شہبازشریف نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے تمام ہمسایوں سے معمول کے تعلقات چاہتے ہیں جبکہ انڈین پرائم منسٹر نے آتنک واد یا ٹیررارزم کی بھرپور مذمت کی یوں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں تقریباً تمام رکن ممالک کے مطالبات یا تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک پر الزام لگانے یا نام لینے کی بجائے ایک عمومی بات کی گئی۔اس میں جہاں پاکستان کے مطالبہ پر جعفر ایکسپریس اور خضدار حملے کی مذمت کی گئی وہیں بھارتی مطالبے پر سانحۂ پہلگام کی دہشت گردی کو قابلِ مذمت قراردیا گیا ۔ 2015ء میں ایران جوہری معاہدے کی توثیق کی گئی تھی اس کے خلاف یواین قرارداد کی دوبارہ تشریح پر خبردارکیا گیا۔ غزہ میں شہری ہلاکتوں کا سبب بننے والے اقدامات اور ایران پر امریکی و اسرائیلی حملوں کی بھی مذمت کی گئی۔ افغانستان میں پائیدارامن کے لیے تمام سیاسی و نسلی گروہوں کے نمائندوں کی شمولیت سے حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ دہشت گرد گروہوں کو سیاسی یا پراکسیز کی حیثیت سے استعمال کرنا ناقابلِ قبول قراردیا گیا۔ مجموعی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا اعلامیہ بڑی حد تک متوازن قراردیا جاسکتا ہے۔ اگلی بات اقتصادی حوالے سے رکن ممالک میں تعاون کی مختلف راہیں تراشنا ہیں جسکی سب سے بڑی ذمہ داری خود چینی قیادت پر عائد ہوتی ہے تاکہ ٹرمپ اپروچ کے بالمقابل ایشیائی اتحاد میں بہتر معاونت اور ترقی کے مواقع پیدا ہوسکیں جس طرح پریذیڈنٹ شی نے چائنا اور انڈیا کو حریف کی بجائے حلیف قراردیا اسی طرح پرائم منسٹر مودی نے سرحدی اختلاف کے باوجود چائنا انڈیا سٹریٹجک ریلیشنز اور تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان تعلقات کو کسی تیسرے ملک کی نظر سے نہیں دیکھاجانا چاہیے۔ دیکھا جائے تو یہ انڈیا کی مجبوری ہے پچھلی ربع صدی سے انڈیا امریکی اتحادی کی حیثیت سے چائنا مخالف گردانا جاتا رہا ہے۔ باسٹھ کی خوفناک جنگ کے بعد، 2020ء میں دونوں ممالک کے درمیان گلوان ویلی کی سرحدی جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔ امریکا آسٹریلیا اور جاپان سے مل کر انڈیا اس کواڈ کا حصہ ہے جس کا مدعا ہی چائنا کا گھیراؤہے تاکہ تائیوان پر کسی نوع کا کوئی ایشو پیدا ہو تو مشترکہ اقدامات کیے جاسکیں لیکن ٹرمپ کی عاقبت نا اندیشی نے بالفعل کواڈ کوہی معطل کرڈالا ہے۔سفارت کار حالیہ تیانجن سمٹ سے یہ توقع کررہے تھے کہ شاید شہبازمودی ملاقات یا کم از کم شیک ہینڈ کی کوئی صورت نکل آئے لیکن بوجوہ یہ ہونہ سکا، درویش کو اس موقع پر وہ تاریخی لمحات یاد آئے جب کشیدگی کی ایسی ہی فضا میں سارک کانفرنس منعقد ہوئی جس سے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف خطاب کرنے کے بعد ڈائس سے واپس جانے کی بجائے،سامنے سے گزرتے ہوئے سٹیج پر بیٹھے پرائم منسٹر واجپائی کے روبرو جاپہنچے اور انکی طرف ہاتھ بڑھایا، واجپائی حیرت کے باوجود ایک دم اٹھے اور گرمجوشی سے ان کاسواگت کیا، یوں اس مصافحہ کی عالمی سطح پر خوب چرچا ہوئی اور باہمی منافرت کی کچھ برف بھی پگھلی۔ اگر آپ خالصتاً قومی مفاد میں سوچیں تو انڈیا دشمنی کا خاتمہ پچیس کروڑ پاکستانی عوام کے زیادہ مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں کو چینی صدر شی جن پنگ کی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں کی گئی تقریر اور انڈیا کے متعلق ان کے اظہارِ خیال سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے یہ کہ شدید ترین سرحدی تنازعات کے باوجود ان معاملات کو مجموعی تعلقات پر حاوی نہیں ہونا چاہیے ۔