• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(ذکیہ مشہدی)

ذکیہ مشہدی، لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی بے مثل، نادرِ روزگار ادیبہ، بِلامبالغہ اُردو افسانے کا دمکتا خورشیدِ جہاں تاب۔ اِس حقیقت کا ثبوت کہ آج بھارت میں پاکستان سے بڑھ کرمعیاری اُردو ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے فعال نقّاد و ادباء کا تذکرہ ہو، تو شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، مغنی تبسم، نیّرمسعود، انیس اشفاق، خالد جاوید، صدیق عالم، سیّد محمد اشرف، شموئل احمد، ساجد رشید، گُل زار اور ذکیہ مشہدی کے علاوہ بھی کئی شان دار قلم کار، لکیر کے اُس پار دکھائی دیتے ہیں۔

اصل نام ذکیہ سلطانہ،1944ء،لکھنؤ میں پیدایش، والد کا نام حکیم احمد صدیقی، نفسیات میں ماسٹرز، بہ طور معلم تقرّر، افسانہ کار، ناول نگار، مترجّم، اردو، انگریزی، ہندی میں یک ساں مہارت کی حامل۔ انسان سے محبت، مجبور و مقہور خلقت کے لیے جذبۂ ہم دردی، حاشیے پر رہنے والوں کی ہم نوا، دھیما دھیما لہجہ اور الفاظ جیسے سامنے قطار بند، رواں رواں زبان، شائستہ بیان۔

’’ہم جیسے‘‘ خواجہ سراؤں کی بِپتا ہے، پاک و ہند کی تہذیب میں خواجہ سراؤں کو مظلوم جان کر اُن سے رحم کا سلوک روا رکھا جاتا تھا، اُن کی بددُعاؤں کاخوف اور اُن کی دُعاؤں کی طلب رہتی۔ زیتون، نانی کی سہیلی، پنج وقتہ نمازن، اُسے نیاز، افطاری باقاعدگی سے پہنچتی تھی۔ راوی کا ایک مرتبہ زیتون کے گھر جانا ہوا، اُس نے وہاں کیا دیکھا، ایک فکرآمیزقصّہ ہے۔ ایک تہذیب، ایک زمانےکی کہانی، سہج سہج کر لکھی ہوئی، سنوری سنورائی داستان۔

اُس دن جانے کہاں سے وہ اتنے سارے اکٹھے دکھائی دے گئے۔ ذہن میں تھا ہی نہیں کہ ایسی کوئی مخلوق بھی ہمارے درمیان ہے۔ ذہن میں لانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ تھی کیا؟ گاڑی ٹریفک سگنل پرکھڑی تھی۔اُس دن ٹریفک کچھ غیرمعمولی تھا۔ جب تک جانے کا اشارہ ملا، گاڑیاں یوں کچھوے کی چال سے سِرکیں کہ بتّی دوبارہ لال ہوگئی، گاڑی وہیں کی وہیں۔ سیف خود ڈرائیو کررہا تھا۔ 

گرمی کی وجہ سے شیشہ گرا ہوا تھا۔ اچانک ایک، بالکل جیسے زمین سے اُگا یا آسمان سے ٹپکا، اُن کی طرف کو آن کے دامن پھیلا کے کھڑا ہوگیا۔ بغل میں بیٹھی صبا نےایک نگاہِ غلط انداز اُس کی طرف ڈالی اور مُنغّض ہوکر منہ پھیر لیا۔ ’’سیٹھ۔ او سیٹھ…‘‘آواز بالکل پھٹے بانس جیسی تھی، جب کہ چہرہ میک اَپ سے مزیّن تھا، گلے، کان میں زیور بھی تھے اور دونوں ہاتھوں میں سُرخ اور سبز چوڑیاں۔ 

پیچھے بیٹھے دونوں بچّے دل چسپی سے اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ پیچھے سے ایک اور بھی نمودار ہوگیا۔ اُس نے تالی ٹھوکی… تالی بجانے کا طریقہ پتا نہیں کیسا تھا۔ کچھ اچھا نہ لگنے والا۔ سترہ سالہ ثناء اس کے لیےکوئی مناسب لفظ ذہن میں لا نہیں سکی، بس کچھ سوچتی رہ گئی۔ تالی ٹھوکنے والا بھی کچھ ایسا ہی تھا یا تھی۔ 

گہرا، سستا میک اَپ، چوڑیاں، سلیقے سے باندھی گئی ساڑی اور آواز پھٹا بانس۔ ’’دے دے، سیٹھ، دے دے۔ اِسی بات کا صدقہ دے دے کہ تُو ہماری طرح نہیں ہے، تیرا بیٹا ہماری طرح نہیں ہے۔‘‘ سیف کانپ گیا۔ اُس نے جلدی سے والٹ نکالا۔ سامنے پانچ سو کا نوٹ تھا۔ اُس نے بڑھا دیا۔ دونوں نے قدرے تعجب سے نوٹ کو دیکھا اوردُعائیں دیتے ہوئے تیزی سے آگےبڑھ گئے۔ ٹریفک لائٹ زرد ہوگئی اور اگلے لمحے سبز۔

آگے دوسرے سگنل پر اُس مخلوق کے کچھ اور نمایندے کھڑے دکھائی دیے۔’’آج جانے کہاں سے کم بخت بلبلا کر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ صبا نے جھنجھلا کر کہا۔ ثناء بڑی دل چسپی سے اُنھیں دیکھ رہی تھی۔’’کوئی ضرورت نہیں، اُدھر دیکھنے کی۔‘‘ صبا جھنجھلائی۔ ’’اب آپ پھر پرس کھولنےچلے۔ خبردار! جو اور پیسے دیے۔‘‘ ’’ارے بھئی، یہ کراس کر رہے ہیں، ہماری طرف نہیں آرہے۔‘‘ ’’پاپا، آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے کچھ گائے، بیل راستہ پار کر رہے ہوں۔‘‘ 

ثناء نےکہا اور فیض زور سے ہنسا۔’’بِٹیا! بلاوجہ کسی پر ہنسنا مناسب نہیں۔ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔‘‘ ثناء نے پھر بغور دیکھا۔ اللہ کی وہ مخلوق تالیاں ٹھوکتی سڑک پار کر رہی تھی۔ ایک راہ چلتے طرح دار لڑکے کو کولھے سے دھکا بھی دیا۔ وہ سٹپٹا کر بھاگا تو انھوں نے قہقہے لگائے۔ پھٹے بانس سی آواز میں بے ہنگم قہقہے۔ یہ سارا تماشا چشمِ زدن میں دکھائی دے گیا۔

گھر واپس آکر بھی صبا کو اُس پانچ سو کے نوٹ کا قلق باقی تھا۔ ’’آپ کو کیا سوجھی تھی یوں پیسے لٹانے کی؟ کسی مستحق کو دے دیے جاتے۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’ارے بھئی، گاڑی چلنے کو تھی۔ پرس کھولا تو سامنے پانچ سو کا نوٹ تھا اور مستحق؟ مستحق ہر وہ شخص ہے، جو ہاتھ پھیلانےپرمجبور ہے۔‘‘’’اچھا تو تھا کہ گاڑی چل دیتی۔ پھر دو ٹکے بھی نہ دیے جاتے۔ 

کم بخت کہیں کے،بےہودہ انداز میں تالیاں ٹھوکتے، گالیاں بکتے رہتے ہیں۔ یہ مستحق ہوگئے!‘‘ صبا شاپنگ کے خُوب صُورت تھیلوں سے سامان باہر نکالتی بڑبڑائے جارہی تھی۔ سیف کو یاد آیا۔ ایسے ہی ایک انسان کے بارے میں نانی کہا کرتی تھیں۔ وہ آئی، وہ گئی۔صیغۂ تذکیراستعمال نہیں کرتی تھیں۔اب پتا نہیں،اُن کی گرامر درست تھی یا صبا کی؟ نانی قصبے میں رہا کرتی تھیں۔

قصبہ کہنے کو قصبہ تھا، لیکن بہت بڑا تھا۔ اُس میں دو بڑے بازار تھے۔ ایک تو چھتا کہلاتا تھا۔ اُس کے اوپر چھت اوردو رویہ دکانیں تھیں۔ وہاں دکان داروں سے بھیک مانگتی یہ مخلوق اکثر دکھائی دے جاتی تھی یا قصبے میں کسی کے ہاں بچّہ ہوا تو ڈھولک لے کر اُن کی ٹولی ’’سج گئی، سج گئی، سج گئی اماں، سُنرگوٹے میں…‘‘ گاتی بجاتی پہنچ جاتی اور اَڑ کے بیٹھ جاتی تو پھر نیگ لے کر ہی اُٹھتی۔

کبھی کچھ مسلمان گھرانوں سے یہ کہہ کراُنھیں بھگایا گیا کہ ہمارے یہاں گانا بجانا خلافِ شرع سمجھا جاتا ہے، تو اُنھوں نے نہ صرف گالیاں دیں بلکہ اُن کے لونڈے کون کون سی غیرشرعی حرکتیں کہاں کہاں کرتے پِھرتے ہیں، اُن سب کا کچا چٹھا بھی بیان کر ڈالا۔ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ بغیر کسی سوشل میڈیا کے کیسا زبردست نیٹ ورک تھا اُن کا!’’ٹھنڈی سڑک پہ، ہاں ہاں جی…اچھن میاں، ہاں ہاں جی…ٹہلتے دِکھے، ہاں ہاں جی… اور بھی کچھ، ہاں ہاں جی… شہناز کا کوٹھا، ہاں ہاں جی… شام کا وقت تھا، ہاں ہاں جی۔‘‘ 

اچھن میاں کے گھر والوں کے کان خرگوش کے کانوں کی طرح اونچے لمبے لمبے کھڑے ہوگئے۔ بے چارے کو خاصی تگ و دو کرنی پڑی کہ وہ فلاں جگہ جارہے تھے، جہاں کے لیے ٹھنڈی سڑک مار کرجانا ناگزیر تھا۔ خیر، گھر والوں کو اُن پر بھروسا تھا اور یہ بات سچ بھی تھی کہ اگر رستوگی ٹولہ جانا ہو، جہاں کنبے کے وکیل شیام نارائن رستوگی کی حویلی تھی، تو لامحالہ ٹھنڈی سڑک پار کرنی ہوتی تھی، جو شریف مَردوں کے لیے ممنوعہ علاقہ تھا۔ تاہم، اچھن میاں کی خُوب صُورت دلہن کو یقین دلانے میں وقت لگ گیا۔

آج سے پچاس سال قبل، جب گیارہ سو کی رقم بہت زیادہ سمجھی جاتی تھی، ایک جگہ اُنھوں نے گیارہ سو کا مطالبہ کیا۔ صاحبِ خانہ پانچ سو سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ بس ٹولی کے لیڈرنےجھٹ ایک خطرناک دھمکی کے بعد کہا۔ ’’بیٹی کے بعد بیٹا ہوا ہے اور اِن کی جیب سے رقم ہی نہیں نکل رہی۔‘‘ خواتین، جو دروازے کے پیچھے سے اُن کا ناچ گانا دیکھ رہی تھیں، آنکھوں پہ ہاتھ رکھ رکھ کے بھاگیں۔

صاحبِ خانہ نے چاول، گُڑ اور ہلدی سے بَھرے سوپ پہ جلدی سے گیارہ سو رکھ دیے، تب مبارک بادیاں گاتا وہ غولِ بیابانی رخصت ہوا۔ اِس طرح کے مضحکہ خیز اور بےہودہ واقعات کی وجہ سے لوگ اُن کے منہ نہیں لگا کرتے تھے۔ خاموشی سے حسبِ حیثیت اور حسبِ موقع نیگ دے دیا کرتے۔ ویسے یہ تفریح کا ایک ایسا ذریعہ بھی تھے، جسے سنجیدہ لوگ بھی منہ پھیر پھیر برداشت کرلیتے۔

نانہال کے ایک واقعے کا چشم دید گواہ سیف خُود تھا۔ گرچہ اُس وقت اُس کی عُمرکوئی چھے سات سال رہی ہوگی۔ اُس عمر کی بیش تر یادیں محفوظ ہوتی ہیں، خصوصاً وہ جنھوں نے دل و دماغ پر اثر ڈالا ہو۔ ماموں کے یہاں اُن کی پہلی اولاد ہوئی، جو بیٹی تھی، اور کون؟ ارے یہی صبا۔ سیف اور تحائف سے لدی پھندی اُس کی امّاں مائکے پہنچیں۔ 

اُدھر وہ بھی پہنچ گئے ڈھولک ٹھنکاتے، ٹھمکے لگاتے۔ ماموں باہر آگئے۔ ’’اے ابا میاں، واری جاؤں۔ اے ہے کیا باپتا اُتری ہے چہرے پہ۔‘‘ اُن دو کے بعد تیسرے نے آگے بڑھ کے بلائیں لیں اور اُنھیں حلقے میں لے کر ناچنے لگے۔ ماموں کو اِس کی امید نہیں تھی۔ ایک تو بالکل نوجوان، تئیس چوبیس کی عُمر، اس پر ابا میاں کا خطاب۔ کھسیانے ہوگئے، لیکن لاکھ پنڈ چُھڑانا چاہیں، کیا مجال جو اس ’’چکرویو‘‘ سے باہر آجائیں۔ ان کی سالیوں نے اندر کھی کھی ٹھی ٹھی کرکے ہنسنا شروع کیا۔ 

سب کی سب دروازے کی جِھری سے لگی باہر جھانک رہی تھیں۔ دراصل ماموں کہہ بیٹھے تھے کہ ’’بیٹی ہوئی ہے، اِس میں اتنا کیا ناچ گانا!‘‘ گرچہ نوجوان ماموں اپنی پہلی اولاد سے بےحد خوش تھے۔ چُھپا چُھپا کے منہ تکتے تھے کہ تب باپ کا اپنی اولاد سے محبت کا اظہار بھی بے شرمی سمجھا جاتا تھا۔ (اُدھر اُن بے چاروں کی ایک پوری آبادی تھی، جو واقعی بےشرمی والے کام کرنے اور بھیک مانگنے والے پیشے میں دھکیل دی گئی تھی۔ 

اُس کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا)۔ بیٹی والی بات ماموں نے اِس لیے کہی کہ بیٹی کی پیدائش پر اِس ’’مخلوق‘‘ کے مطالبات ذرا کم ہوجاتے تھے۔ لڑکے کے مقابلے نصف رقم اور اناج کی نصف مقدار قبول کرلی جاتی تھی۔ ماموں کے یہ کہنے پراُن کا سربراہ بھڑک گیا۔ ’’اے ہے میری جان…‘‘ اُس نے تالی ٹھوکی۔ ’’تم تو مسلمان ہو، تمھارا دعویٰ ہے کہ بیٹی ہونے پر سوگ مناویں کافر… اے ہےسمجھتےہو، ہمیں نہیں معلوم… ہم میں کئی مسلمان ہیں۔ 

ہاں یہ نہیں کہا گیا کہ کسی کے ہم پیدا ہوجائیں تو وہ کیا کرے، رودے کہ ہنسے؟‘‘ باقی یک لخت سنجیدہ ہوگئے، جیسے اوپر اُڑتے کسی منحوس پرندے نے اُن کے چہروں پر اپنے پروں کا سایہ ڈال دیا ہو، لیکن بس پل بھر کی بات تھی۔ وہ ذرا کی ذرا ہی ٹھٹھکے تھے۔ انھوں نے پھر قدم تال دے کے ماموں کے گرد گھومنا شروع کردیا۔’’ہمیں سب معلوم ہے، ہاں ہاں جی… ہم میں بھی ہیں مسلمان، ہاں ہاں جی… بی بی زیتون کو دیکھ لو، ہاں ہاں جی۔‘‘ ماموں نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ اُدھر نانی نے کہلوایا۔ ’’جو کہیں دیا جائے گا۔ بس حد سےآگے نہ بڑھیں۔‘‘ ماموں کا پنڈ چُھوٹا۔

یہ بچّی سیف کی دلہن بنی۔ اُس کی وجہ سے نانہال سیف کا سُسرال بھی بنا اور اِسی وجہ سے اُس کا وہاں آنا جانا برقرار رہا، جو شاید یوں اتنا نہ ہوتا کہ بڑے ہوکر زندگی میں الجھ کر آج کل بچّوں کو نانہال اور دادھیال یاد ہی کہاں رہ گئے ہیں۔ سیف نانی کوبچپن سے چھیڑا کرتا تھا۔ اُن سے اُس کی ہمیشہ لڑائی چلتی رہتی تھی۔ بالوں میں مہندی کیوں لگاتی ہیں؟ دو دانت ٹوٹ گئے تو مصنوعی کیوں نہیں بنواتیں؟ ایک ہی کہانی کیوں دہراتی رہتی ہیں؟

پالک کھلانے پر کیوں مصر رہتی ہیں؟اس کےمنہ پر پھونکیں کیوں چھوڑتی رہتی ہیں؟یہ اُس وقت کی بات ہے، جب سیف زیادہ بڑا نہیں تھا اوراُس کی ماں اکثر وہاں جاتی رہتی تھیں۔ سیف جب کافی بڑا ہوگیا، بلکہ صبا سے اُس کی منگنی بھی کردی گئی، تو اُسے نانی کی ایک بات سے بڑی کوفت ہوا کرتی تھی۔

نانی نےایک ہیجڑے سے دوستی کر رکھی تھی۔ جو ٹولی صبا کی پیدائش پر آئی تھی، یہ ان کا گُرو تھا۔ نانی کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہوتا چلا گیا۔ نانی اُس کا ذکر صیغۂ تانیث میں کرتی تھیں۔ اُس کا نام زیتون تھا۔ سیف اور صبا کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ زیتون آئی تھی یا آیا تھا۔ چلو نانی ہی کی زبان استعمال کر لیتے ہیں۔

ماموں کے یہاں اگلی بار بیٹا ہوا۔ نانی بے انتہا خوش۔ بیٹی ہوتی، تو ذرا نہ خوش ہوتیں۔ بہو کے پاؤں بھاری ہوتے ہی ٹونے ٹوٹکے، دُعا تعویذ شروع کردیے تھے۔ صبا کے وقت کہتی تھیں۔ ’’چلو، پہلوٹھی کا بچّہ تو لڑکا یا لڑکی، لیکن اگلی بار تو بس بیٹا ہی ہوجائے۔‘‘ تو بیٹا ہونے پر قبل اِس کے کہ ہیجڑے آئیں، اُنھوں نے خود ہی کہلا بھیجا کہ فلاں دن چَھٹی ہے۔ تبھی سے نانی اور زیتون کی دوستی ہوئی تھی۔ زیتون نماز کی بڑی پابند تھی اور سارے روزے رکھا کرتی تھی۔ 

سُنا کہ اُس نے حج بھی کیا تھا۔ اب اُس کے محرم، نامحرم کا فیصلہ کیوں کر ہوا تھا یا وہ کس کے ساتھ گئی تھی؟ اُس کی تفصیل کسی کو نہیں معلوم تھی۔ نانی نے الگ سے بھی کچھ رقم دی۔ سیف کی ماں یعنی بچّے کی پھوپھی نے بھی الگ سے نیگ دیا۔ زیتون نے ٹولی کے باقی لوگوں کو جانے کا اشارہ کیا اور خُود وہیں پسر کے بیٹھ گئی۔ ’’ہم ذرا ناریل پی لیں۔ چکر آگیا ہے۔ اب ہم سے ناچا نہیں جاتا۔ 

ڈھولک بجاتے بجاتے انگلیوں میں درد ہوجاتا ہے۔‘‘ اُس نے کاندھے سے ایک گجراتی وضع کا رنگ برنگے ٹکڑوں سے سجا ہوا جھولا لٹکا رکھا تھا۔ وہ اُسے لٹکائے لٹکائے ہی ناچی تھی۔ اُس نے اُس میں سے گڑگڑی نکالی اور ایک کالی سی ڈبیا۔ ماموں نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔ ’’تم بھی جاؤ، یہاں ڈیرا رمانا ہے کیا؟‘‘ نانی نے کہا۔ ’’اے ہئے دُکھیا تھک گئی۔ بیٹھنے دے ناں۔‘‘ 

دراصل بقول ایک رشتے دار خاتون ممانی نے دوسرے ہی ہلّے میں پالا مارلیا تھا۔ اِس لیے مارے خوشی کے نانی کا دل سیال بن کر بہہ رہا تھا۔ ایک دَم سے سب کے لیے مہربان بن گئی تھیں۔ ’’اے بِٹیا! اب تو ہم اس کی شادی پہ ناچیں گے۔‘‘ زیتون نے تالی ٹھوکی، اُنگلی نچائی اور نانی کو پانچ پوتوں کی دُعائیں دیتی ہوئی وہیں پھسکڑا مار کے بیٹھ گئی۔ پھر اُس نے ساڑی گھٹنوں تک چڑھائی، ڈبیا کھولی اور ایک مرہم جیسا نکال کے گھٹنوں پر مالش کی۔ 

پردے کے پیچھے سے نانی اُسے دیکھا کیں۔ ’’یہ کیا ہے، زیتون؟‘‘ زیتون نے پردے کے اُس پار ہی سے ان کی بلائیں لیں۔ ’’بی بی! یہ اپنے محلے کے حکیم صاحب سے لیا تھا۔ رام بان ہے، رام بان۔ جب گوڈّے دُکھیں، ذرا سا لگالو۔ بس تُرنت راحت۔‘‘ نانی نے پردہ ہٹا دیا۔ تب سے زیتون کا درونِ خانہ ایسا نزول ہوا کہ نانی اور وہ ساتھ ساتھ ادھیڑ سے بوڑھی اور پھر بوڑھی پھونس ہوئیں۔ 

’’گوڈّوں‘‘ کے درد کے لیے حکیم صاحب کا مرہم نہ زیتون کے لیے کارگر رہا، نہ نانی کے لیے، پھر بھی وہ لٹھیا ٹیکتی ٹیکتی آتی رہی۔ چائے نہیں پیتی تھی، اِس لیے نانی اُس کے لیے شربتِ روح افزابنواتی تھیں۔ اُس کےطفیل لڑکے بالے اور نوکر بَھر بَھر گلاس روح افزا پیتے تھے، لیکن نانی کے چالیس ویں میں آئی تو لوگوں نے اُسے بھگا دیا، جب کہ فاتحہ کے کھانوں میں شربت کا گھڑا بھی تھا۔ وہ روتی دھوتی چلی گئی۔ پھر کبھی دکھائی نہیں دی۔

’’یہ کہانی مجھے کیوں سُنا رہے ہو؟‘‘ صبا نے سیف سے کہا۔ ’’اس کہانی کے بہت سے حصّے تو تم سے زیادہ میں جانتی ہوں۔ لوگ پہلے زیتون کے ہمارے گھر کے اندر آنے پر بہت ناک بھوں چڑھاتے تھے، لیکن پھر اُنھوں نے اُسے قبول کرلیا۔ زیتون پنج وقتہ نمازن تھی اور تیسوں روزے رکھتی۔ نانی اسے ہمیشہ افطاری بھیجتی تھیں اور کوئی نیاز فاتحہ ہوتی، اُسےحصّہ ضرور جاتا۔‘‘ ’’اِس کہانی کاجو حصّہ تمھیں نہیں معلوم، وہ سُنانا چاہتا ہوں۔

باقی تو اس کا بیک ڈراپ ہے۔‘‘ سیف نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’بس، چُپ چاپ سُن لینا۔ تو ہوا یوں کہ ایک بار جب مَیں تم سے منگنی کے بعد نانہال گیا ہوا تھا، تو نانی نے کہا۔ ’’سیف! ذرا زیتون کے تو ہو آئیو۔‘‘ مَیں سخت چیں بہ جبیں ہوا۔ ’’کیوں؟ مَیں کیوں؟‘‘ ’’تمھارے ساتھ تمھاری امّاں نے میکےنہیں، سمدھیانے کے رشتےسے جو مٹھائی کھٹائی بھیجی ہے، اُس کا حصّہ دے آؤ۔ بہت بھیج دی ہے۔‘‘ مَیں سخت ناراض ہوا۔ ’’اب مَیں یہاں کا ہونے والا داماد ہوں۔ امّاں لاکھ سمدھیانہ مانیں، میری تو کوئی قدر ہی نہیں۔ اب مَیں اُن ہیجڑوں کے گھر مٹھائی لے کے جاؤں۔‘‘ 

نانی تو لگا، بس ابھی چپل پھینک کے ماریں گی کہ مَیں نے اُن کی سہیلی کے لیے ایسے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کیے تھے، لیکن اُس وقت اُنھوں نے مجھے داماد مان لیا۔ ایسی کوئی حرکت نہیں کی اور نرمی سے بولیں۔ ’’دیکھ بیٹا! کسی ملازم کو بھیجتی ہوں تو وہ اُن لوگوں کو چھیڑتا ہے۔ وہ بھی بےہودگی پہ اُتر آتے ہیں۔ عورت کوئی جانا ہی نہیں چاہتی۔ ’’اے ہے، اُن کے گھر!‘‘ یہی جواب ملتا ہے۔ 

’’نہ بی بی! کہیں بھیج دیجیے۔ بس، ان لقندروں کے گھر ہم نہ جاتے۔‘‘ ابھی تھال زیبن اُٹھائے گی۔ تمھارے ساتھ جانے میں اُسے اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ مَیں نانی کے محبت بَھرے لہجے سے پگھل گیا۔ زیبن پیچھے پیچھے سر پہ بڑا سا تھال لے کے چلی۔ وہاں پہنچا تو زیتون گلے پڑگئی۔’’میرا بچّہ، میرا لال، میرا نوشہ۔ ذرا اندر قدم رکھ لیو۔ ہمارا گھر پاک ہوجائے گا۔‘‘ زیبن منہ پہ دوپٹا رکھ کے ٹھی ٹھی کرکے ہنسنے لگی۔’’جایئےناں، نوشہ میاں۔‘‘ میرا جی چاہا، اُس کی لمبی چوٹی پکڑکے کھینچ دوں، لیکن اُس وقت دل ایک سرور سے لب ریز تھا۔ 

اِس لیے کہ تمھارا مجھ سے پردہ کروا دیا گیا تھا، لیکن تب ہی تم مجھ سے چُپکے سے آکر مل گئی تھیں۔ مَیں اندر چلا گیا۔ وہ پورا محلہ ہی کسی غریب کے گھر جیسا تھا۔ غریبوں کی اُن اوبڑ کھابڑ گلیوں، گندی نالیوں، کوڑے کے ڈھیر اور اُن میں دانہ دُنکا چُگتی مرغیوں کے درمیان اُن کا بھی گھر تھا۔ کچا، بیش تر اور گھروں کی طرح کھپریل کی چھت، لیکن قدرے وسیع۔ 

برآمدے میں مٹّی کا دومنہ کا چولھا اور فوراً ہی ایک سیڑھی اُتر کے آنگن کے ایک کونے میں نلکا۔ چولھے کے آس پاس ایک ہیجڑا پرات میں رکھی ترکاریاں کاٹ رہا تھا، دوسرا سوپ میں چاول بین رہا تھا، تیسرا چولھے کی آگ تیز کرنے کے لیے ایک ہاتھ میں پھنکنی پکڑ کے پھوں پھوں کررہا تھا اوردوسرے سے ہنڈیا بھونتا جاتا تھا۔ دھویں سے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور چہرہ سُرخ تھا۔ مَیں نے نظریں دوڑائیں۔ چولھے سے ذرا ہٹ کے ایک کھونٹی پہ ڈھولک ٹنگی ہوئی تھی اور برابر کی کھونٹیوں پہ گھنگھرو۔

’’شرر شررکی لَے، سُر میں آتی آواز پہ نظریں مزید آگے دوڑائیں تو دیکھا آنگن کے کھونٹے میں ایک تنومند بکری بندھی ہوئی تھی۔ سامنے چارے کی ناند رکھی تھی، جس میں وہ مزے سے منہ ڈالے چارہ کھا رہی تھی اور آرام سے دودھ دوہاتی جاتی تھی۔ اکڑوں بیٹھ کرزانوں میں المونیم کی ٹیڑھی میڑھی پتیلی دبائے دودھ دوہنے والے ہیجڑے کو مَیں نے پہچانا۔ وہ کسی موقعے پہ اوروں سے زیادہ تیز ناچا تھا۔ 

اُن میں سی کسی کے چہرے پہ نہ وہ پھوہڑ سُرخی، پاؤڈر تُھپا ہوا تھا، جس میں وہ ہمیشہ دکھائی دیتے تھے، نہ کسی کے پاؤں میں گھنگھرو تھے اور نہ کوئی اُس نیم فحش انداز میں تالیاں ٹھوک رہا تھا۔ وہ سب ذرا مردانہ چہرے مُہرے والی، لانبے قد کی بےہنگم سی بےحد غریب عورتیں لگ رہے تھے۔ اُن کے گھر، باہر کے سودے سلف والوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ 

اندر بھی عام آوازیں موجود تھیں، پھر بھی گھر میں ایک رُوح فرسا اداسی اور ایک منحوس خاموشی پسری پڑی تھی۔ ہنڈیا میں چلتے چمچ، دودھ کی دھاروں کی شرر شرر اور نلکے پر دھلنے والے کپڑوں کی چَھپ چَھپ کے باوجود ایک بے کراں اداسی اور لامتناہی خاموشی۔ مَیں اس وقت تئیس چوبیس سال کا عاقل و بالغ انسان تھا۔

انجینئرنگ کےفائنل ائیرمیں اور میری منگنی بھی ہوچُکی تھی، لیکن شاید یہ توقع لے کر گیا تھا کہ ہیجڑے ہیں تو ناچ ہی رہے ہوں گے، ڈھولک ٹھنکا رہے ہوں گے۔ اُنھیں دیکھ کر مَیں ٹھگا سا کھڑا رہ گیا۔ سب زندگی سے نبرد آزما ہم جیسے انسان تھے۔ واپسی میں سارے راستے یہ خیال میرے ذہن میں ڈھولک کی طرح ٹھنکتا رہا۔ مجھے زیتون کے ساتھ اُس کی کھٹیا پہ بیٹھ کے بکری کے دودھ میں بنی چائے پینے کا نہ کوئی افسوس تھا، نہ کوئی شرمندگی!‘‘