• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں چار فوجی ڈکٹیٹر آئے مگر کئی ایسے غنچے بھی ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے۔ دنیا بھر میں جونیئر فوجی افسروں کی طرف سے انقلاب برپا کئے جاتے رہے ہیں مثال کے طور پر 1921ء ایرانی فوج کے ایک افسر کرنل رضا خان نے عنان اقتدار پر قبضہ کرکے پہلوی خاندان کے دور کا آغاز کیا۔ 23جولائی 1952ء کو مصر کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں شاہ فاروق کا تختہ اُلٹ کر اگرچہ کچھ عرصہ کیلئے جنرل نقیب کو آگے لایا گیا مگر اس کارروائی کے اصل منصوبہ ساز کرنل جمال ناصر تھے۔اسی طرح 14جولائی 1958ء کو عراق میں میجر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف نے حکومت پر قبضہ کرکے شاہ فیصل دوئم سمیت شاہی خاندان کو قتل کردیا۔ 1969ء میں لیبیا کی فوج کے ایک کرنل معمر قذافی انقلاب لانے میں کامیاب رہے۔ بنگلہ دیش میں جونیئر افسروں کی اقتدار پر قبضہ کرنیکی کوششیں کامیاب رہیں مگر پاکستان میں سپہ سالار کے علاوہ جس کسی نے بھی مارشل لا لگانے کی کوشش کی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

ناکام فوجی بغاوتوں سے متعلق بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ افواج پاکستان کی افسر کور میں حکمرانی و جہاں بانی کا خناس کہاں سے آیا؟ 1946ء کے اوائل میں تحریک پاکستان پورے جوبن پر تھی مگر یہ بات پورے وثوق سے نہیں کی جاسکتی تھی کہ انگریزوں سے آزادی حاصل ہوگی یا نہیں ۔اس دوران انڈین نیشنل آرمی کے ایک مسلمان افسر لیفٹیننٹ کرنل گلزار احمد نے فوجی بغاوت کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ مسلمان فوجی افسروں میں سے پہلے CO تھے، یہ قیام پاکستان کے بعد بطور بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے ، ضیاالحق کے دور میں انہوں نے سیرت پر ایک کتاب لکھی ’Battles of Prophet of Allah ’‘‘۔ انکے دو بیٹے بریگیڈیئر جاوید احمد اور بریگیڈیئر فاروق احمد بھی افواج پاکستان سے ریٹائرڈ ہوئے۔ بریگیڈیئر گلزار احمد جنجوعہ جو 1946ء میں لیفٹیننٹ کرنل تھے، انہوں نے فوجی بغاوت کا منصوبہ مسلم لیگی رہنما سردار عبدالرب نشتر کو پیش کیا، جنہوں نے یہ تجویز لیاقت علی خان کو پہنچائی اور انہوں نے قائداعظم کو صورتحال سے آگاہ کیا تو قائداعظم نے انہیں ملاقات کیلئے بلالیا۔ اس حوالے سے تفصیلات معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہوچکی ہیں جبکہ مقبول ارشد نے اپنی کتاب’’ناکام فوجی بغاوتوں‘‘ کے صفحہ نمبر 16 اور 17پر بریگیڈیئر گلزار احمد کے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا ہے۔ بریگیڈیئر گلزار احمد کہتے ہیں جب قائداعظم کا پیغام ملا تو انکی ٹانگیں کانپنے لگیں اور انہوں نے ایئرکموڈور جنجوعہ کو بھی ساتھ لے لیا جو تب ونگ کمانڈر تھے۔ قائداعظم نے پوچھا ،What Will be Our Job۔ بریگیڈیئر گلزار احمد نے کہا، سر! آپ ہی ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں کہ کون کون سے مسلمان افسر ہماری مدد کرسکتے ہیں۔؟ قائداعظم نے سوال کیا Will it be above board or underhand یعنی کیا یہ خفیہ منصوبہ ہوگا یا علانیہ؟ بریگیڈیئر گلزار جنجوعہ نے کہا، عسکری منصوبہ ہے تو اسے خفیہ ہی ہونا چاہئے۔ قائد اعظم گرجدار آواز میں بولے، نوجوان ! کیا تم جانتے ہو،خفیہ اور پس پردہ کی جانیوالی کارروائیاں آبرومندانہ نہیں ہوتیں،اور جو کام آبرو مندانہ نہ ہوں ،وہ اسلامی نہیں ہوسکتے۔ بریگیڈیئر گلزار گھبرا گئے اور اُٹھ کر کھڑے ہوئے تو قائداعظم نے کہا، بیٹھ جائو۔تم جانتے ہو اسلام کیا ہے؟ اسلام میں مقاصد اور انہیں حاصل کرنے کے ذرائع دونوں اہم ہیں، اسکے برعکس عیسائیت میں صرف مقاصد پر نظر رکھی جاتی ہے۔ قائداعظم نے فوجی بغاوت کے اس منصوبے کو تو مسترد کردیا مگر فوجی افسروں کے ہاں یہ چنگاری مسلسل سلگتی رہی۔بریگیڈیئر گلزار احمد جنجوعہ کیساتھ اس ملاقات میں شریک فضائیہ کے افسر ایئر کموڈور محمد خان جنجوعہ چند برس بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے برپا کی گئی اس ناکام فوجی بغاوت کا حصہ بنے جو راولپنڈی سازش کہلائی۔بہر حال قائداعظم سے فوجی افسروں کا دوسری بار سامنا تب ہوا جب قیام پاکستان سے چند روز قبل لیفٹیننٹ کرنل شاہد حامد نے تجویز دی کہ آپ کو مسلمان فوجی افسروں سے ملنا چاہئے۔ لیفٹیننٹ کرنل شاہد حامد جو بعد ازاں بطور میجر جنرل ریٹائر ہوئے اور آئی ایس آئی کے پہلے سربراہ کے طور پر انہیں اس خفیہ ادارے کا گاڈ فادر سمجھا جاتا ہے ،انہوں نے قائداعظم کے اعزاز میں پرتکلف اعشائیے کا اہتمام کیا۔ 3اگست 1947ء کو لیفٹیننٹ کرنل شاہد حامد اور انکی اہلیہ طاہرہ حامد نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔میجر جنرل شاہد حامد اپنی تصنیف ’’Early years of Pakistan‘‘ کے صفحہ نمبر 11پر لکھتے ہیں کہ ایک سوال کے جواب میں قائداعظم نے واضح کیا کہ ،پاکستان کی منتخب حکومت سویلین چلائینگے، اگر کوئی فوجی افسر جمہوری اصولوں کے برعکس سوچ رکھتا ہے تو وہ افواج پاکستان کا انتخاب نہ کرے۔ قائد اعظم کا فوجی افسروں سے تیسری بار آمنا سامنا تب ہوا جب انہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر 14اگست 1947ء کوکراچی کے گورنر جنرل ہائوس جو آج کل سندھ کا گورنر ہائوس کہلاتا ہے، اسکے سبزہ زار میں استقبالیہ دیا۔پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم نے اس ملاقات کی تفصیل اپنی کتاب ’’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘میں بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان جو بعد میں میجر جنرل بنے اور راولپنڈی سازش کیس کے حوالے سے مشہور ہوئے، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں قائد اعظم سے با ت کرنی چاہئے ۔قائداعظم اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوئے مہمانوں سے مل رہے تھے اور جب وہ ہماری طرف آئے تو ہمارا حال پوچھا۔ اکبر خان نے قائداعظم سے مخاطب ہوکر کہاکہ،ہمیں بہت خوشی ہے کہ وہ ایک آزاد اور خودمختارملک کے قیام کی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ہمیں اُمید تھی کہ اُنکی قیادت میں ہماری صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائیگا۔ لیکن ہمیں مایوسی ہوئی کہ مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں پر برطانوی افسران کو تعینات کیا گیا ہے اور ہمارا مستقبل اب بھی انکے ہاتھوں میں ہے۔ قائداعظم نے جو یہ سب کچھ تحمل سے سن رہے تھے ،اپنی اُنگلی بلند کی اور فرمایا: ’’یہ مت بھولیں کہ آپ عوام کے نوکر ہیں۔ پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں۔ یہ ہمارا یعنی عوام کے نمائندوں کا کام ہے۔ منتخب حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘

تازہ ترین