• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اعلان کر رہا ہوں کہ ہم نے اندرونی آڈٹ بھی کرایا ہے: چیف جسٹس پاکستان

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ہمیشہ قانون کی بالادستی کے لیے کام کیا۔آج اعلان کر رہا ہوں کہ ہم نے اندرونی آڈٹ بھی کرایا ہے۔ 

جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے عدالتی نظام کو مؤثر بنایا جا رہا ہے، مقدمات کو جلد نمٹانا ترجیح ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے  کہ نئے عدالتی سال کی اس تقریب کا آغاز 1970ء کی دہائی میں ہوا، یہ موقع ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں۔

انہوں نے کہا کہ 2004ء سے اس تقریب کو باقاعدگی سے منانا شروع کیا، عہدہ سنبھالنے کے بعد اصلاحات کی ضرورت محسوس کی، بطور چیف جسٹس ریفارمز کرنے کی اہمیت کا سوچا، ہم نے 5 بنیادوں پر اصلاحات شروع کیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے سروس ڈیلیوری کو اہمیت دی، کیسز میں شفافیت کو اہمیت دی، قانونی فریم ورک کو اہمیت دی، سپریم کورٹ میں 8 سیکشنز ہیں، ہر سیکشن نے انصاف کی جلد فراہمی کو ترجیح دی۔

ان کا کہنا تھا کہ 6 اجلاس کیے گئے جس میں ریفارمز پر بحث ہوئی، ڈیجیٹل کیس فائلنگ اور کیس ٹریکنک جیسے اقدامات حال میں کیے، ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ہر کوئی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 61 ہزار فائلیں ڈیجیٹلی اسکین ہوں گی اور پروجیکٹ 6 ماہ میں مکمل ہو جائے گا، کیسز کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے مقرر کیا جائے گا، ڈیجیٹل اسکین پروجیکٹ کامیاب ہونے پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال شروع ہو گا، ابھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے لیے ہم تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیسیلیٹیشن سینٹر میں تمام انفارمیشن دی جائے گی، فیسیلیٹیشن سینٹر یکم اکتوبر سے مکمل طور پر کام شروع کر دے گا، ٹیکنالوجی کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو مؤثر بناناہے،  مقدمات کو جلد نمٹنا ترجیحات میں شامل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالتی نظام میں شفافیت انصاف مہیا کرے گا، ای سروسز کا آغاز کیا جا چکا ہے، رولز کو ایک دن میں نہیں بنایا جاسکتا، تجاویز کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں گی، کمیٹی جو تجویز کرے گی اس کے مطابق آگے چلیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جلد کیس مقرر کرنے کی درخواست سال بھر چیف جسٹس کے کمرے میں پڑی رہتی تھیں، میرے اور ججز کے ساتھ سیکیورٹی میں کمی کی گئی، ریڈ زون میں پروٹوکول میں کمی کی گئی، اسلام آباد سے باہر جانے پر ججز کو سیکیورٹی کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن ریڈ زون میں اتنی نہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ میرے ساتھ سیکیورٹی کی 9 گاڑیاں ہوتی تھیں، اپنی سیکیورٹی کی گاڑیاں کم کر کے صرف 2 رکھی ہیں، سپریم کورٹ رولز میں ججز کی چھٹیوں کا معاملہ واضح کیا، عدالتی تعطیلات کے دوران کسی جج کو اجازت کی ضرورت نہیں۔ عام تعطیلات کے علاوہ چھٹی کے لیے بتانا لازمی ہوگا۔

قومی خبریں سے مزید