• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین میں اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت کی من مانیوں اور ہٹ دھرمیوں پر مسلم حکومتوں کی بے عملی کی وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ 57مسلم ملک توسیع پسندانہ اسرائیلی منصوبوں کی راہ روکنے سے قاصر ہیں۔ تاہم اس تاثر کو صرف ایک ملک یعنی متحدہ عرب امارات کی ایک حالیہ وارننگ نے بڑی حد تک زائل کردیا ہے۔اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ تقریباً تین ہفتے پہلے ماہ اگست کے وسط میں اسرائیلی حکومت نے راتوں رات مشرقی یروشلم کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کی منظوری دے ڈالی ۔اسرائیلی وزیر خزانہ کے ترجمان نے بڑے گھمنڈ کے ساتھ اعلان کیا کہ اس اقدام سے فلسطینی ریاست کے قیام کا خیال ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائے گا۔ترجمان نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان 3401گھر اسرائیلی آباد کاروں کیلئے تعمیر کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967ءکی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد وہاں تقریباً 160 بستیاں قائم کی تھیں جن میں 7لاکھ یہودی آباد ہیں اوربین الاقوامی قانون کی رو سے یہ بستیاں قطعی ناجائز اور غیر قانونی ہیں۔ اگست کی 14تاریخ کو اس ضمن میں تازہ پیش رفت کی خبر دیتے ہوئے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ اسرائیلی سیکورٹی کابینہ نے نیتن یاہو کے غزہ پر عسکری قبضے اور مغربی کنارے پر نئی یہودی بستیوں کے تعمیر کی تجویز منظور کرلی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔ صہیونی حکمراں اسے پچھلے کئی عشروں سے عمل میں لانے کے خواہاں ہیں لیکن اتحادیوں اورعالمی طاقتوں کے اعتراضات پر 2012ءمیں اسے روک دیا گیا تھا۔ تین ہفتے پہلے ساڑھے تین ہزار نئی ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے اسرائیل کے تازہ عزائم سامنے آنے کے بعد فلسطینی وزیر خارجہ نے اس منصوبے کو قتل عام، بے دخلی اور دیگر جرائم میں نیا اضافہ قرار دیا جبکہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ادارے پیس ناؤ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے ہزاروں گھروں کی تعمیر کا یہ منصوبہ مستقبل میں دو ریاستی حل کے تمام امکانات ختم کر دے گا۔

تاہم فلسطینی ریاست کے خیال کو ہمیشہ کیلئے دفن کردینے کے متکبرانہ صہیونی اعلان پر رواں ہفتے کی ابتدائی تاریخوں میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ مغربی کنارے کے کسی بھی قسم کا الحاق ہمارے لیے سرخ لکیر ہے۔ اماراتی معاون وزیر لانا نسیبہ نے اسرائیل کو وارننگ دی کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوئی بھی کوشش ہمارے لیے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہوگی اور تل ابیب کا یہ اقدام معاہدہ ابراہیمی کو نقصان پہنچائے گا جس کے ذریعے پانچ سال پہلے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے تھے۔انہوں نے صراحت کی کہ متحدہ عرب امارات فلسطینی عوام اور آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا۔فلسطینی اتھارٹی کی وزارتِ خارجہ نے امارات کے اس مؤقف کا خیر مقدم کیا جبکہ اسرائیلی حکومت نے اس پر کسی تبصرے سے گریز کی راہ اپنائی۔ لیکن اسکے ایک ہی دن بعد اسرائیل نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی کارروائی روک دی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو نے حکومت کے ایجنڈے سے مغربی کنارے کے الحاق کا معاملہ ہٹا دیا۔اسرائیلی چینل نے بتایا کہ نیتن یاہو حکومت کا اجلاس مغربی کنارے کے بڑے حصے پر اسرائیلی خودمختاری کے نفاذ پر بات کرنے کیلئے طے تھا تاہم ایجنڈا بدل کر فلسطینی علاقوں میں بگڑتی ہوئی سیکورٹی صورتحال پر مرکوز کر دیا گیا۔چینل نے نام نہ ظاہر کرنے والے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یو اے ای کی وارننگ نے نیتن یاہو کو مجبور کیا کہ وہ کابینہ اجلاس سے مغربی کنارے کے الحاق کا معاملہ واپس لے لیں۔ اسرائیلی چینل کے مطابق اسرائیلی حکام نے کہا کہ امارات نے نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے منصوبے کو ترک کر دیں ورنہ 2020ءمیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے والے معاہدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی یہ کارروائی تمام عرب اور مسلم ملکوں کی حکومتوں پر اس حقیقت کو عیاں کرنے کیلئے ایک اچھی مثال ہے کہ اسرائیل کوئی ایسی طاقت نہیں جس کی من مانیوں کو چیلنج نہ کیا جاسکتا ہو لہٰذا اسلامی تعاون تنظیم کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبوں اور غزہ میں جاری قتل وغارت کی روک تھام کیلئے مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات کی فوری منصوبہ بند ی کرنی چاہیے۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی اور پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ جارحیت کے نتائج بھی- جن کے باعث امریکی سرپرستی کے حامل دونوں جارح ممالک کو ہزیمت کا سامنا کر کے جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا - اس تاریخی صداقت کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ ناجائز مؤقف کے مقابلے میں درست مؤقف بجائے خود ایک ایسی لافانی طاقت ہوتا ہے جس پر ڈٹ جایا جائے تو کامیابی مقدر بن جاتی ہے جبکہ حق پر ہونے کے باوجود باطل کے خوف اور اندیشوں میں مبتلا رہنا ذلت و رسوائی کا سبب ثابت ہوتاہے۔ اس کیفیت کی کیا خوب عکاسی اسمٰعیل میرٹھی نے یوں کی ہے:

جو ہچکچا کے رہ گیا ،سو رہ گیا اُدھر

جس نے لگائی ایڑ وہ خندق کے پار تھا

تازہ ترین