• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصطفیٰ کھر کی لاہور میں واقع رہائش گاہ کے دروازے پر انکے جواں سال صاحبزادے یزدانی کھر نے میرا استقبال کیا اور مجھے اپنے والد کے پاس لے گیا۔ کھر صاحب ٹی وی لاؤنج میں ایک بڑی چارپائی پر آنکھیں موندے لیٹے ہوئے تھے۔ میری آمد کی اطلاع ملنے پر انہوں نے آنکھیں کھول کر خوش دلی سے میرا حال احوال پوچھا۔ میں صوفے پر ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ بظاہر صحت مند اور ہشاش بشاش لگ رہے تھے۔ پچھلے ایک سال سے وہ خاصے بیمار چلے آرہے تھے اور طبیعت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ انہیں علاج کی غرض سے دبئی بھی لے جایا گیا تھا جہاں انہیں تقریباً چھ ماہ قیام کرنا پڑا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی طبیعت سنبھلی تو وطن لوٹ آئے۔ مجھے اطلاع ملی تو میں مزاج پرسی کیلئے حاضر ہو گیا۔

کھر صاحب سے میری شناسائی کا آغاز 2019ء میں اس وقت ہوا جب میں مظفرگڑھ میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا اور وہ ایک روز ملنے کیلئے چلے آئے۔ بتانے لگے ان کے والد صاحب نے انہیں نصیحت کی تھی کہ سیاستدان خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ضلع کا بڑا ڈپٹی کمشنر ہی ہوتا ہے اور ہر نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر کو اس کے دفتر میں جا کر ایک دفعہ ضرور ملنا اور خوش آمدید کہنا چاہئے۔کھر صاحب کی سیاست اپنے عروج کو 70 کی دہائی میں پہنچی جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اور گورنر رہے۔ بعد ازاں ان کی کثیر الازدواجی بھی ان کی شناخت بنی۔ آج کی نسل مگر ان کی بابت کچھ زیادہ نہیں جانتی۔ میں البتہ ہمیشہ ہی سے تاریخ کا طالبعلم رہا ہوں۔ کھر صاحب میرے پاس تشریف لائے تو انہیں توقع نہ تھی کہ میں ان سے اور ان کے ماضی سے پوری طرح واقف ہوں گا۔ دوسری طرف میں بھی ان سے ملاقات کا بہت مشتاق تھا کہ ان سے بہت کچھ براہِ راست جاننے کا موقع ملے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے۔ میرے اس سوال پر کہ بھٹو صاحب سے اس قدر دوری کیوں ہو گئی کہ وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے، کھر صاحب بتانے لگے کہ بھٹو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف تھے اور یہ کہ وہ اپنے مقابل کسی کو بھی ایک حد سے زیادہ پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کھر صاحب سے گفتگو کے دوران میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود آج بھی ان کے دل میں بھٹو صاحب کیلئے پسندیدگی اور احترام موجود تھا۔ گئے دنوں کے سیاستدان شاید اسی وضع داری کے حامل ہوتے تھے۔

تاہم جب کھر صاحب کو یہ پتا لگا کہ میں اس امر سے بھی واقف ہوں کہ انہیں اُس زمانے میں اپنی شخصیت اور اثر و رسوخ کی بِنا پر شیرِ پنجاب کہا جاتا تھا تو فرطِ جذبات سے وہ اٹھ ہی کھڑے ہوئے اور میرے ماتھے کو چوم لیا۔اس روز میں ان سے بہت مستفید ہوا۔ میں سوال کرتا تھا اور وہ یوں جواب دیتے تھے جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے آج بھی وہ واقعات رونما ہو رہے ہوں اور وہ وہاں موجود ہوں۔ میں نے ان سے یہ بھی گزارش کی کہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہ اب بھی ہمارے درمیان موجود تھے اور انہیں نئی نسل کو مستفید کرنے کیلئے اپنی یادیں کتابی شکل میں قلمبند کرنی چاہئیں۔ میرے اس مشورے کو نہ صرف انہوں نے بہت غور سے سنا بلکہ اس پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔ وہ رخصت ہوئے تو خاصی دیر تک ان کی باتیں ان کی یادیں میرے ہمراہ رہیں۔

کچھ عرصہ بعد میں نے شانِ مظفرگڑھ کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی تو کھر صاحب سمیت تمام ان لوگوں کو مدعو کیا جو ملکی و غیر ملکی سطح پر مظفرگڑھ کی پہچان کا سبب بنے تھے۔ کھر صاحب ایوارڈ لینے اسٹیج پر چڑھنے لگے تو میں نے انہیں سہارا دینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا، وہ اسے دانستہ نظر انداز کر کے بغیر کسی مدد کے اسٹیج پر چڑھے۔ وہ باقاعدگی سے ورزش اور خاص طور پر یوگا کے عادی تھے سو اپنے ہم عصروں کی نسبت ان کی صحت ہمیشہ ہی سے قابلِ رشک رہی ہے۔

کچھ عرصہ بعد اگرچہ میں مظفر گڑھ سے چلا آیا لیکن کسی نہ کسی طرح کھر صاحب کے ساتھ رابطہ رہا۔ بیماری کی اطلاع ملنے پر میں ہسپتال ان کی مزاج پرسی کیلئے جانا چاہ رہا تھا کہ پتا چلا کہ ان کی زوجہ ان کو بہتر علاج کی غرض سے دبئی لے کر چلی گئی ہیں۔ کئی مہینوں بعد واپسی ہوئی تو اس ملاقات کا اہتمام ہو سکا۔ اس دوران کھر صاحب کی زوجہ عیونیہ کھر اور بیٹا بھی وہیں بیٹھے رہے۔ کھر صاحب کی بیماری کے ایام کی تصویریں دیکھیں تو ان کی صحت یابی ایک کرشمے سے کم نہ لگی۔ عیونیہ کھر اس بات پر بھی خاصے غم و غصے کا اظہار کرتی رہیں کہ’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ میں کھر صاحب کی یکسر غلط تصویر کشی کی گئی ہے۔ ان سب سے گفتگو اگرچہ دلچسپی کا حامل تھی لیکن مجھے اس بات کی بھی فکر تھی کہ کھر صاحب تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں گے، سو رخصت چاہی۔

واپسی کے سفر کے دوران میں سوچتا رہا کہ ہم طالب علموں کیلئے تو کھر صاحب جیسے لوگ تعلیمی و تاریخی اثاثہ ہوتے ہیں۔ وہ بہت سے اہم تاریخی واقعات کے نہ صرف عینی شاہد تھے بلکہ بعض صورتوں میں تو مرکزی کردار بھی تھے۔ ان سے گفتگو کرتے یہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ ہم تاریخ جان ہی نہیں رہے بلکہ اسے رونما ہوتے ہوئے دیکھ بھی رہے ہیں۔ اور پھر اوپر سے یہ سہولت بھی کہ جب چاہیں کوئی سوال بھی پوچھ ڈالیں اور جواب پا لیں۔ آج تو وہ ہمارے درمیان موجود ہیں، ایک وقت آئے گا کہ ہم ان حوادث اور واقعات کی بابت صرف کتابوں میں ہی پڑھ پائیں گے۔

تازہ ترین