میری پیدائش سکھر میں ہوئی، ایک ایسا شہر جہاںتاریخ، ثقافت اور انجینئرنگ آپس میں جُڑ کر ایک منفرد منظرنامہ بناتے تھے۔ دنیا کیلئے یہ شاید ایک صوبائی قصبہ ہو، مگر ہمارے لئے جو وہاں پلے بڑھے، سکھر ایک مکمل کائنات تھا بیراجوں اور پلوں کا شہر، کلبوں اور کتب خانوں کا شہر، دریاؤں اور الگوژہ کی موسیقی کا شہر، اور اندھی ڈولفنوں کا شہر جو پوری دنیا میں کہیں اور نہیں ملتیں۔علم و ثقافت کا شہر:بطور طالبعلم، میں اکثر سینٹ میری اسکول کی کلاسوں سے نکل کر لوکس پارک کی طرف نکل جاتا، یا سادھو بیلا کے پراسرار جزیرے کو تکنے لگتا، یا منزل گڑھ کے کنارے بیٹھ کر دریائے سندھ کے بہاؤ کو دیکھتا۔ مگر سکھر صرف دریا تک محدود نہیں تھا،یہ علم و ادب کا شہر بھی تھا۔سکھر کی جنرل لائبریری، جو 1800کی دہائی میں قائم ہوئی تھی، سندھ کی قدیم ترین لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ سینٹ مارسویس اور سیولز جیسے اداروں کے ساتھ،یہ لائبریری اس بات کی علامت تھی کہ سکھر تقسیم سے بہت پہلے ہی ایک ترقی یافتہ شہر تھا۔ ہمارے لیے کتابیں، موسیقی اور یادیں دریافت کا ایک سہ رخی دروازہ بن گئے تھے۔ثقافتی زندگی بھی نہایت شاندار تھی۔ کلر کلبز میں اشرافیہ کا اکٹھ ہوتا، جبکہ عرسوں اور میلے ٹھیلوں میں الگوژہ کی مدھر دھنیں فضاؤں میں گونجتی تھیں۔ اُس وقت جب دریا پر بڑے پل ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے اور ٹرینیں کشتیوں پر لائی جاتی تھیں، سکھر پھر بھی ایک فنکارانہ لے میں دھڑکتا رہتا تھا۔انجینئرنگ کے عجائبات کا شہر:سکھر کا کوئی بچہ انجینئرنگ کے کرشموں سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ لینزڈاؤن برج، جو 1889ءمیں مکمل ہوا، اپنی تکمیل کے وقت دنیا کا سب سے طویل Rigid girder پل تھا۔ اس کا فولاد مانچسٹر میں ڈھلایا گیا، سندھ بھیجا گیا اور برگرٹ کی نگرانی میں سکھر میں نصب ہوا۔ کئی دہائیوں تک اس نے انجنوں اور ٹرینوں کو دریائے سندھ پر سے گزارا، جو اس سے پہلے کشتیوں پر لائے جاتے تھے۔ ایک بچے کے تخیل میں یہ کسی عالمی عجوبے سے کم نہ تھا۔پھر آیا لائیڈ بیراج، جو 1932ءمیں مکمل ہوا اپنے دور کا سب سے عظیم آبپاشی منصوبہ۔ اسے سندھ کے بار بار آنے والے قحط ختم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا، جو دریائے سندھ کے موسمی بہاؤ کی وجہ سے ہوتے تھے۔ پہلی بار پرینئیل اریگیشن نے سال بھر پانی بہایا۔ اس کے دروازوں سے سات عظیم نہریں نارا، رائس، دادو، خیرپور فیڈر، روہڑی اور دیگر نکل کر سات ملین ایکڑ سے زیادہ زمین کو سیراب کرتی تھیں۔ یہ بیراج بجا طور پر دنیا کا عجوبہ کہلایا۔ اس نے نہ صرف قحط کو ختم کیا بلکہ سندھ کی زرعی معیشت کی بنیاد بھی رکھ دی۔جغرافیائی سیاست اور ریل کا شہر:سکھر کبھی الگ تھلگ نہیں رہا۔ یہ سلطنتوں کے سنگم پر کھڑا تھا۔ بولان پاس اور خیبر پاس ہندوکش کے وہی دو حقیقی دروازے تھے جن سے ہندوستان میں داخلہ ممکن تھا، کیونکہ باقی جگہ ہمالیہ دیوار بن کر کھڑا تھا۔ یہی راستے تاریخ کو تشکیل دیتے رہے،حملہ آور انہی سے آئےاور انگریزوںنے انہی کو محفوظ کر کے خطرات کو قابو میں رکھا۔ قلات کا الحاق اور کوئٹہ میں چھاؤنی کی تعمیر اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ریل نے سکھر کو اس عالمی بساط سے جوڑ دیا۔ دریائے سندھ پر پل بچھا کر یہ لائنیں کوئٹہ اور بولان تک پہنچیں۔ خود لینزڈاؤن برج ’’گریٹ گیم‘‘کا حصہ تھا جس نے سلطنتی افواج کو مغرب کی سمت بڑھنے کا راستہ دیا۔ میرے جیسے ایک لڑکے کیلئے، جو دریا کنارے بیٹھ کر ٹرینوں کو گزرتے دیکھتا تھا، یہ گویا فولاد میں ڈھلتی تاریخ تھی۔ڈولفنوں اور عجوبوں کا شہر:اور پھر تھیں ڈولفنیں۔ انڈس بلائنڈ ڈولفن (Platanista gangetica minor) دنیا میں کہیں اور نہیں ملتیں۔ یہ صرف پاکستان کے دریائے سندھ کی مخلوق ہیں، اور ان کی سب سے بڑی آبادی لائیڈ بیراج سکھر اور گڈو بیراج کے درمیان پائی جاتی ہے۔1960ءکی دہائی میں، جب میں بچہ تھا، یہ تقریباً غائب ہو چکی تھیں۔ کبھی کبھار، لبِ مہران پر ایک جھلک مل جاتی۔ اُس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا۔ یہ نایاب ترین مخلوق تھی جو سکڑتے دریا میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 1970ءکی دہائی تک صرف تقریباً 150 باقی رہ گئیں۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ ہمیشہ کیلئے ناپید ہو جائینگی۔لیکن 1974ءمیں انڈس ڈولفن ریزرو قائم ہوا۔ سب امکانات کیخلاف، انکی آبادی دوبارہ بڑھی۔ آج، تقریباً 18سوسے زیادہ ڈولفن زندہ ہیں، جن کی زیادہ تر تعداد سکھر اور گڈو کے درمیان ہے۔ جب آج واپس جا کر میں انہیں جھنڈ کی صورت اچھلتے کودتے دیکھتا ہوں، تو یقین آتا ہے کہ اگر موقع دیا جائے تو فطرت خود کو شفا دے سکتی ہے۔ماضی پر نظر ڈالوں تو مجھے لگتا ہے سکھر میرا اصل استاد تھا۔ بیراجوں نے مجھے سکھایا کہ پانی ہی زندگی ہے کہ قحط کو دریا کے بہاؤ کو قابو میں لا کر ختم کیا جا سکتا ہے۔ پلوں نے مجھے سکھایا کہ رابطہ ہی بقا ہے کہ معاشرے اُس وقت ترقی کرتے ہیں جب وہ دیواروں کے بجائے پل بناتے ہیں اور ڈولفنوں نے مجھے سکھایا کہ شمولیت ہی طاقت ہے کہ جو کچھ کھویا ہوا لگے، وہ اگر محفوظ کیا جائے تو دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔میری زندگی مجھے دور لے گئی پیرس تک، جہاں سین دریا پر پلوں کے نیچے میں نے سکھر کو یاد کیااور مانچسٹر تک، جہاں وہ فیکٹریاں کھڑی ہیں جنہوں نے میرے بچپن کے پل کیلئے فولاد ڈھالا تھا۔ مگر سکھر ہمیشہ میرے خون میں بہتا ہے۔ یہ بیراجوں اور پلوں کا شہر تھا، کتب خانوں اور کلبوں کا شہر، اساطیر اور عجائبات کا شہر۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بچپن اور تاریخ ملےاور جہاں اندھی ڈولفنیں آج بھی دھارے میں رقص کرتی ہیں۔