• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جین زی(GEN Z)“نے سری لنکا، انڈونیشیا اوربنگلہ دیش کے بعد اب نیپال میں وہ کچھ کردکھایا ہے جسے ناممکن سمجھاجاتا تھا۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ محض 26سوشل میڈیا اپیلی کیشنز پر پابندی کے خلاف ایسا شدید ردعمل آئے کہ پورے ملک میں احتجاج پرتشدد تحریک میں بدل جائے اور چند ہی روز میں وزیراعظم اور اسکی کابینہ کو بمشکل جان بچا کر فرار ہونا پڑے؟نیپال میں ایسا ہی ہوا۔گزشتہ ہفتے یوٹیوب،فیس بک،ایکس اور ٹک ٹاک سمیت سماجی رابطوں کی 26ایپس کو بند کردیا گیا۔وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا موقف تھا کہ جب تک یہ کمپنیاں نیپال میں رجسٹریشن نہیں کرواتیں اور مقامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتیں،انہیں کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔بس پھر کیا تھا،پورے ملک میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ ہونے لگی، وزرا کی پرتعیش رہائشگاہوں پر حملے کئے جانے لگے۔ افراتفری کے دوران قیدی جیلوں سے فرار ہونے لگے۔ حکومتی رٹ ختم ہوگئی۔ پیر کی شب کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر سوشل میڈیا پر پابندی ختم کرنیکا فیصلہ کیا گیا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔اب یہ احتجاج تحریک میں بدل چکا تھا۔اقربا پروری کو بے نقاب کرنے والے”نیپو بے بی“اور ”نیپو کڈز“ کے ہیش ٹیگ مقبول ترین سیاسی نعرے بن چکے تھے۔حکمرانوں کا طرز زندگی،پروٹوکول،مراعات اور محلات نما رہائشگاہیں نفرت کی اس آگ کو دہکا رہی تھیں تو بدعنوانی کے الزامات ایندھن کا کام کررہے تھے۔اس دوران بپھرے ہوئے مظاہرین نے کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کو آگ لگا دی،وزیراعظم کو گھسیٹا گیا،وفاقی وزرا پر تشدد کیا گیا یوں محض پانچ دن میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔اب ’’موج‘‘ ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ سپہ سالارجنرل اشوک راج سگدل نے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے اور ویڈیو بیان جاری کیا ہے کہ فوج قومی اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے۔ بدامنی کے خاتمےکیلئے ڈیڈلائن دی گئی ہے۔ابھی یہ واضح نہیں کہ اس انقلاب کے نتیجے میں نیا وزیراعظم آئے گا،نئی حکومت بنے گی یا پھر عنان اقتدار آرمی چیف سنبھال لیں گے۔بنگلہ دیش میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کی طرح نیپال میں پیش آنیوالے واقعات پر بھی ہمارے ہاں طفلان انقلاب کی خوشی دیدنی ہے لیکن کیا دونوں ممالک میں پیش آنیوالے حالات و واقعات میں کسی قسم کی مماثلت ہے؟ یہ معلوم کرنے سے پہلے”جین زی“ کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’جین زی‘‘ یا جنریشن زیڈجنہیں زومرز (Zoomers) بھی کہا جاتا ہے، یہ وہ بچے ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں پیدا ہوئے ہیں۔ بعض ماہرین عمرانیات کے مطابق 1997ء سے 2012ء کے دوران جنم لینے والے بچے اس جنریشن میں شمار ہوتے ہیں جبکہ کچھ ماہرین 1990ء میں پیدا ہونیوالوں کو بھی جنریشن زی میں شمار کرتے ہیں۔یہ ہمارے عہد کے وہ چالاک بچے ہیں جنہوں نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور گلوبلائزیشن کے زمانے میں آنکھ کھولی،ہاتھوں میں موبائل فون اور ٹیبلٹ لیکر پیدا ہوئے۔ اس نسل کا المیہ یہ ہے کہ معلومات کے سمندر میں ہچکولے کھاتے پھرتے ہیں مگر علم کی پیاس نہیں بجھتی کیونکہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ انکے نزدیک حقیقت وہی ہے جو سوشل میڈیا پر دکھائی دیتی ہے۔ انکے ہاں دنیا اس قدر سرعت سے تبدیل ہوئی ہے کہ اب وہ ہر وقت تغیر و تبدل کے منتظر رہتے ہیں۔بہت جلد اُکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ انتظار کی کوفت سے بیزار ہوجاتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ ایک بٹن دبانے سے،کوئی Reel بنانے سے یا ٹرینڈ چلانے سے سارے مسائل حل ہوجائیں۔ جنریشن زی کی اس بیزاری اور اُکتاہٹ کو ایک طرف پاپولسٹ لیڈر اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کرتے ہیں تو دوسری طرف غیر ملکی طاقتوںکیلئے ناپسندیدہ حکومتیں گرانا اور دشمن ممالک کوعدم استحکام سے دوچار کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اگر نیپال کی بات کریں تو یہاں بھارتی مداخلت واضح دکھائی دیتی ہے۔ مودی سرکار برسہا برس سے اس خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے اس طرح کی تحریکوں کو استعمال کرتی چلی آئی ہے۔2019ء میں بھارت نے ایسے نقشے جاری کیے تھے جن میں کالاپانی سمیت نیپال کے زیر انتظام متعدد علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا۔جس پر نیپال کی حکومت نے سخت احتجاج کیا۔ وہاں بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث ’’نیپال چھوڑ دو‘‘ تحریک بھی چلائی گئی۔نیپالی حکومت کے مختلف عہدیداروں کی طرف سے بھارتی پردھان منتری کو مختلف مواقع پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ایک موقع پر مودی کو مسخرہ،دہشتگرداوراسرائیلی کٹھ پتلی کے القابات سے نوازا گیا۔ لہٰذا نیپال میں ہونیوالے پرتشدد مظاہروں اور اسکے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی جنریشن زی کا ملکی معاملات میں بہت اہم کردار رہا ہے۔جین زی کا المیہ یہ ہے کہ انکی تاریخ سوشل میڈیا سے شروع ہوکر ڈیجیٹل میڈیا پر ختم ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے وہ گویا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے یہ منظر نہیں دیکھا ہوتا۔یہ اپنے علاوہ سب کو احمق اور نادان ہی نہیں،نااہل اور بدعنوان بھی سمجھتے ہیں۔ انہیں تبدیلی نظام کے نعرے پر کوئی بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا سکتا ہے۔ آپ طنزاً انہیں زومبیز کہیںیاپھر طفلان انقلاب کی پھبتی کسیں،لیکن یہ نوجوان ایک چلتا پھرتا ٹائم بم ہیں جنہیں محض سوشل میڈیا کا فتنہ قرار دیکر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔یہ ایسا دھماکہ خیز بارودی مواد ہے جسے کبھی کوئی بھی معمولی چنگاری بہت بڑے دھماکے میں تبدیل کرسکتی ہے۔ کوئی متحارب ملک،کوئی مفاد پرست ٹولہ ان شتر بے مہار نوجوانوں کو ریاست کیخلاف استعمال کرسکتا ہے۔ سری لنکا،بنگلہ دیش اور نیپال میں جو کچھ ہوا، اسکا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگر آپ تباہی و بربادی سے بچنا چاہتے ہیں، انتشار کا راستہ روکنا چاہتے ہیں تو اسکا حل پابندیاں نہیں،متبادل بیانیہ ہے۔ جنریشن زی کو انہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے جن پر وہ انحصار کرتے ہیں اور اب تو گویا وہ اس سوشل میڈیا کو اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں۔

تازہ ترین