اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود حماس مرکز پر فضائی حملہ کیا ہے جس میں حماس چیف خلیل الحیہ کا بیٹا، تین محافظ اور ایک معاون سمیت چھ افراد جاں بحق ہوگئے، اسرائیل کا اصل ٹارگٹ حماس سربراہ اوردوسری قیادت تھی جو متعین مقام پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی غزہ جنگ بندی تجاویز پر غور کرنےکیلئے حماس قیادت یہاں جمع تھی، ٹرمپ نے اگرچہ اس حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ترجمان وائٹ ہاؤس نے یہ کہا ہے کہ ٹرمپ اپنے اتحادی قطر کی سرزمین پر ہونے والے حملے سے متفق نہیں تھے اور انہوں نےقطر کو پیشگی خبردار کردیا تھا جبکہ قطر کا کہنا ہے کہ اسے اس وقت آگاہ کیا گیا جب حملے کا آغاز ہوچکا تھا دوسری طرف اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ انہوں نے حملے سے قبل نہ صرف امریکا کو اعتماد میں لیا تھا بلکہ واشنگٹن نے حملے میں انہیں مدد بھی فراہم کی۔ یہ حقیقت ساری دنیا کو معلوم ہے کہ دوحہ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا موجود ہے اور یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ یہاں اتنی بڑی کارروائی امریکا کو اعتماد میں لیے بغیر کی جاسکے، یہ امر بھی واضح ہے کہ قطر سے کیے گئے معاہدے کی روسے امریکا قطری سرزمین کے تحفظ کا ضامن ہے مگر جب بات اسرائیل کی آجائے تو تمام ضمانتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
اسرائیلی پرائم منسٹر بنجمن نیتن یاھو نے دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا ہے کہ حماس پر یہ حملہ ایک روز قبل یروشلم میں اسرائیلیوں پر ہونے والے حماس کے حملے کا فوری جواب تھا جس میں پانچ یہودی ہلاک ہوگئے اور بیس کے قریب زخمی۔ علاوہ ازیں اسی روز حماس کی بچھائی ہوئی ایک بارودی سرنگ پھٹنے کے باعث اسرائیلی ٹینک اڑنے سے چار اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے ۔سات اکتوبر یا حالیہ اسرائیلی نقصان کے بالمقابل غزہ میں فلسطینیوں کا جو تورا بورا بنایا جارہا ہے یہ کہیں زیادہ بھاری ہے۔ تازہ رپورٹ قابلِ ملاحظہ ہے۔ اسرائیلی فوج کی انتقامی کارروائیوں میں 83فلسطینی شہید، غزہ میں مزیداونچی عمارتیں نشان زد، 3روزمیں پانچ بلند عمارتیں زمین بوس، 209رہائشی فلیٹ ملبے کا ڈھیر 4100افراد بے گھر ،اب حالت یہ ہے کہ اسرائیل، جس ملک سے بھی حماس کو مدد یا معاونت ملتی دیکھتا ہے، اسی پر چڑھ دوڑتا ہے، اس سلسلے میں لبنان، شام، ایران، عراق، تیونس اور یمن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں امریکی تھنک ٹینک کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ ترکیہ ہوسکتا ہے کیونکہ اسرائیل نے ترک قیادت کو انتباہ کردیا ہے کہ وہ حماس رہنماؤں کو فوری ملک بدر کردے یا انکے ٹھکانوں سے ڈیڑھ سو فٹ دور رہے۔ حالانکہ ترکیہ نیٹو کا رکن ملک ہے جس کا آرٹیکل پانچ واضح ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ گردانا جائے گالیکن اسرائیل کے حوالے سے یہ امر سب پر واضح ہے کہ یہ آرٹیکل اسی طرح دھرے کا دھرا رہ جائے گا جس طرح قطر کے حوالے سے امریکی گارنٹی۔ اسی برس بیس جنوری کے بعد قطری قیادت نے ٹرمپ کے خطرناک عزائم دیکھتے ہوئے انہیں یہ پیشکش کی تھی کہ اگر آپ لوگوں کو ہماری مصالحانہ کاوشیں ناپسند ہیں تو ہم اپنا یہ رول ختم کرتے ہوئے اپنے ملک سے ان تمام گروہوں کا انخلاء کروائے دیتے ہیں ،اسکے جواب میں وائٹ ہاؤس نےاعلیٰ ترین سطح سے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ لوگ اپنا یہ رول As such جاری و ساری رکھیں کیونکہ اسی رول کی وجہ سے حماس یا دیگر طالبان جیسے گروہوں سے بالواسطہ روابط میں معاونت ملتی ہے بصورت دیگر یہ لوگ کھلے یا چھپے دشمنوں کے پاس جاسکتے ہیں۔ اصولی بات ہے جب امریکا نے از خود اپنی رضامندی سے قطری قیادت کو اس کی اجازت دے رکھی تھی تو پھر قطری وقار اور قومی و ملکی سلامتی کے ساتھ اس نوع کا مذاق نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایران میں حماس قیادت کو اسرائیل کا ٹارگٹ کرنا قابلِ فہم ہو سکتا تھا لیکن قطر جیسے قریب ترین امریکی اتحادی کی سرزمین پر اس نوع کی کارروائی کا کوئی جواز نہ تھا، اس سے قطر کی قیادت پر نہ صرف دیگر دوستوں یا اتحادیوں کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا بلکہ آئندہ کیلئے قطر وہ مصالحتی رول ادا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا ،خود امریکا جسے ضروری خیال کرتا ہے۔بلاشبہ بشمول یورپ اور مڈل ایسٹ کی قیادت بالخصوص سعودی کراؤن پرنس سب نے اس اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے لیکن واضح بات ہے کہ یہ کھوکھلی مذمت لاحاصل ہے، تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ کیا ان سب کو اسرائیل اور امریکا پر بدلے میں جنگی یلغارکردینی چاہیے؟ کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ امریکا سے اس نوع کی جنگ لڑسکیں؟؟ جی ہاں! یہ سب اس پوزیشن میں ہیں کہ مل کر مڈل ایسٹ کیلئے امریکا سے امن معاہدہ منواسکیں جس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حماس جیسےگروہوں کو غیر مسلح کرتے ہوئے تمام اسرائیلی بے گناہ یرغمالی شہری رہا کروائے جائیں۔ سعودی کراؤن پرنس بھی اس کا عندیہ ظاہر کرچکے ہیں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس سلسلے میں حماس لیڈرشپ کیلئے جو الفاظ استعمال کی انہیں حیطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی ساری زندگی ہمارے سامنے ہے جن کے متعلق کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنے فلسطینی عوام کے دشمن ہیں یا اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ جب وہ حماس کے خلاف اتنا شدید بول رہے ہیں اور انہیں باربار سمجھا چکے ہیں کہ غزہ کے مظلوم فلسطینی عوام کی تباہی کے ذمہ دار تم ہو، اپنی بری حکمرانی اور ذاتی مفادات کی خاطر تم نے غزہ کے عوام کی زندگیاں جہنم بنارکھی ہیں، تم غیر مسلح ہوتے ہوئے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑ دو تاکہ اسرائیل کے پاس غزہ پر حملوں کا جواز نہ رہے۔محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ جیسےحماس نیتن یاہو کی سب سے بڑی محسن ہے!امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ کو بھی چاہیے کہ وہ اس ننگی جارحیت پر نیتن یاہو کو لگام دیتے ہوئے اپنے بلند بانگ دعوؤں کا کچھ بھرم تو رہنے دیں۔