اپنے آخری سالوں میں رہتے تو وہ کراچی کے خیابان سحر میں تھے لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جسے امریکی دانشور فرانسس فوکو یاما نے بعد از تاریخ زمانہ کہا تھا میں بلوچ رہنما خیر بخش مری کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر ایسے لگتا تھا کہ پرانے لیکن اب تک زندہ آتش فشانوں کی چوٹیوں پر ایک شاہ شاہین نے بسیرا کیا ہوا ہے۔یہ اقبال والے شاہین تو ہرگز نہ تھے لیکن گزشتہ چار دہائیوں سے بلوچ نوجوانوں کی ہر نسل نے انہیں بلوچوں کا چی گویرا کہا تھا۔ ایسے شاہینوں کیلئے عظیم سندھی شاعر شیخ ایاز نے کہا تھا، شاہین کتنے بھی بوڑھے ہو جائيں لیکن پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینے کی خواہش پھر بھی اپنے پروں میں رکھتے ہیں۔
خیر بخش مری جن پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دینا چاہتا تھا وہ بنیادی طور پر ان مصائب و مسائل، اس استحصال اور لوٹ مار کے تھے جو بلوچوں پر دیسی اور بدیسی حکمرانوں نے گرا رکھے ہوئے تھے اور یہ بلوچ رہنما اپنی نوخیز جوانی سے لیکر بڑھاپے تک ایک حالت جنگ میں رہا۔ یہ عجیب سردار اور نواب تھا جو کامریڈ کہلانا پسند کرتا تھا۔ سخت گیر، کم گو و نرم گفتار خیر بخش مری جو اس قبیلے کا سردار تھا جو کئی اسٹیریو ٹائپ سے قطع نظر علم الانسان یا اینتھرو پولوجی کے طالب علموں کیلئے آج بھی دلچسپی کا باعث ہے جن کی سماجی زندگی ،رہن سہن اور بلوچی تہذیب پر کن مانے جانے انتھروپولوجسٹوں نے کئی برس ان خانہ بدوش قبائل کے ساتھ سفری تحقیق میں گزار دیئے ہیں۔ کہیں کہیں یہ آج بھی نیم قدیم اشتمالی دور میں رہتے ہیں لیکن خیر بخش مری بلوچ سردار سے زیادہ جدید بلوچ قوم پرستی یا بلوچ حقوق کے شعور کی سہ مورتی کے ایک رتن تھے۔ بلوچ حقوق یا جدید بلوچ قوم پرستی کی تحریک کی یہ سہ مورتی غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور خیر بخش مری پر مشتمل تھی۔ لیکن خیر بخش مری نے خود کو بلوچ قوم پرست نہیں ایک حریت پسند قرار دے رکھا تھا ۔ انیس سو تہتر کی بلوچ سرکشی کے زمانے میں بلوچستان کی مزاحمتی سیاست کے بائیبل مانی جانے والی کتاب ’’بلوچستان: ان افغانستانس شیڈو اینڈ سوویت ٹیمپٹیشنز‘‘ کتاب کے مصنف سیلگ ہیریسن جنہیں میں نے ایک دفعہ بلوچ دل رکھنے والا امریکی کہا تھا نے خیر بخش مری پر ایک باب : مارکسزم اور ان کے مرغے لڑانے کے شوق کے حوالے سے مارکسز اینڈ کاک فائیٹنگ کے عنوان سے لکھا ہے۔
خیر بخش مری، ان کا قبیلہ اور ایسے دیگر بلوچ قبائل ایک سو تریسٹھ سال سے حالت جنگ میں رہے ہیں۔ خیر بخش مری سمیت تاریخ کے طالب علم اسے قدیم زمانے کے بلوچ بزرگ محراب خان کے زمانے سے شمار کرتے ہیں۔ آپ اڑسٹھ سال پاکستان کے بھی ان ایک سو تریسٹھ برسوں میں شامل کر دیجئے۔ کردوں کے یہ کزن قوم بلوچ توران سے تربت اور سندھ اور پنجاب کے طول و عرض شمال اور جنوب تک آباد ہیں، سب سے بڑا قبیلہ مری قبیلہ ہے۔
خیر بخش مری اس قبیلے کے سردار تھے جن کے دادا خیر بخش مری سینئر نے اس وقت انگریز حکمرانوں کے لئے اپنے قبیلے کے لوگ فوج میں بھرتی کرنے سے انکار کر دیا تھا جب موجودہ پنجاب سمیت برطانوی ہند میں کئی خانوادوں کے زعماء اپنے قبیلوں اور علاقوں میں لوگ بھر بھر کر انگریزی فوج میں بھرتی کراکر منصب ،جاگيریں اور رقبے حاصل کر رہے تھے۔ گھوڑی پال اسکیموں کے خانوادے آج بھی پاکستان میں معتبر بنے ہوئے ہیں۔ وطن پرست غدار و قابل گردن زدنی۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی پہلی بڑی جنگ کے زمانے میں جبری فوجی بھرتی پر پنجاب میں جو لوک شاعری تخلیق ہوئی تھی وہ آج بھی پڑھنے اور سننے والوں کے دل کو خون کے آنسو رلا دیتی ہے:
لوکی کملے لدی لدی جاندے
ٹٹ گيئآں یاریاں تے پھل کملائے
ٹک پئو اتھاہیں وے ڈھولن یار
نہ ونجھ نہ نجھ وے ڈھولن یار
خیر بخش کے قبیلے میں بھی سندھ اور پنجاب میں کچھ ایسے وڈیرے تھے جنہوں نے انگریزوں کی دلالی میں خیر بخش سینئر کے خلاف مخبر بن کر منصب حاصل کر لئے تھے۔ برصغیر میں یہ لوگ زیادہ تر جاگیردار، نواب اور سردار جدی اصلی تے وڈے چوہدری نواب سردار جاگیردار نہیں تھے وہ یا تو چور ڈاکو تھے یا پھر انگریز بیٹھکی حکمرانوں کے پاس محب وطن یا دیش بھگت لوگوں کی مخبریاں کر کے جاگیروں اور رقبوں کے مالک بنے تھے لیکن خیر بخش مری کے آبائواجداد ان چند بلوچ سرداروں میں سے تھے جو سر پھرے تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے گمنام مری لڑاکا کاروں کی قبریں آج بھی پنجاب بلوچستان بارڈر پر ڈیرہ غازی خآن کے قریب موجود ہیں۔
لاہور میں اپنی جوانی کے برس گزارنے والے خیر بخش مری پھر بڑے بھائیوں کے بلوچوں و دیگر قومیتوں کے ساتھ حسن سلوک کے پیش نظر اپنے پینے کو پانی بھی بلوچستان سے لے آتے۔حیدرآباد سازش کیس میں خان عبدالولی خان کے ایک وکیل اور پنجاب نیپ کے رہنما مشتاق راج کہتے تھے کہ حیدرآباد سازش کیس کی سماعت کے دوران کیس کی کوریج کو آنے والے کچھ مغربی صحافی خیر بخش مری کے کمرہ عدالت میں آتے ہی ان کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوتے کہ ان کی شخصیت و شکل ایک برگزیدہ شخصیت سے ملتی تھی۔ جبکہ جوانی میں وہ بقول امریکی صحافی میری این ویور کے وجیہہ و خوبصورت خیر بخش مری کی شباہت ایک معروف ہالی ووڈ ایکٹر سے ملتی تھی۔
حیدرآباد سینٹرل جیل میں دوران قید وہ ٹینس کھیلتے اور اپنے شوق کے لڑاکا مرغے بھی رکھے ہوئے تھے۔خیر بخش مری کی کتابیں اور ان کے مرغے وہ جہاں جہاں بھی جاتے الگ گاڑیوں میں ان کے ساتھ جاتے۔ گہرے مطالعے اور برسوں کی جلاوطنی نے ان کی شخصیت میں ایک سمندر جیسی پرشور خاموشی کو پیدا کیا لیکن جب بھی وہ بولتے چہرے پرمسکراہٹ اوران کی زبان میں ایک ماہر سرجن کے چاقو جیسی کاٹ ہوتی۔
جب وہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں جلاوطنی سے واپس لانے کو سی ون تھرٹی میں لائے گئے تھے تو ان کے مرغے ایک الگ طیارے میں آئے تھے۔
دوران جلاوطنی ان کے اپنے تب کے ساتھیوں ہزار خان بجارانی مری اور شیرمحمد مری المعروف بابو مری یا جنرل شیروف سے اختلافات پیدا ہوئے۔ کل کا جنگجو بلوچ کردار ہزار خان بجارانی مری اب کہ بلوچستان میں فوج کے ساتھ ہے۔ ہزار خان مری اور دیگر کے ساتھ اختلاف اتنے شدید ہوئے کہ جسٹس نواز کے قتل پر ان کے قتل کا الزام خیر بخش مری پر اور ان کے بیٹوں پر لگا اور انہیں کئی مہینے جیل میں رکھا گیا۔ جیل کے دوران خیر بخش مری پر جیل اہلکاروں نے تشدد بھی کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک تحقیقی ٹیم نے خیر بخش مری کے خلاف جسٹس نواز مری کے قتل کے مقدمے کو جھوٹا الزام قرار دیا تھا۔
جلاوطنیوں اور جیلوں کے طویل سلسلے بھی اس باغی بلوچ کو جھکا نہ سکے۔ نہ اس پرانے لیکن زندہ آتش فشاں کو توڑ سکے تھے۔ جسے میرے ایک دوست نے لیبیا کے اطالوی استعماریت کے خلاف لڑنے والے کردار عمر مختار سے تعبیر کیا ہے۔ خیر بخش مری نے بھی عمر مختار کی طرح اپنے کوہلو اور کاہان سے نکلنے کو تیل تو کیا ایک پتھر بھی اٹھانے نہ دیا۔ جسے فوجی آمر مشرف اور اس کے پیشرو ترقی کے مخالف سردار قرار دیتے رہے تھے۔ صرف تین سر پھرے یا باغی سردار۔ لیکن اس پر خیر بخش مری نے کہا تھا،جی ہاں جنرل پرویزمشرف تمام بلوچستان کو ایک ترقی یافتہ، اسٹیٹ اف دی آرٹ چھاونی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ’’خیر بخش مری انیس سو ساٹھ سے لیکر جب سے قرآن دیکر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جھوٹی قسموں پر نوروز خان اور اس کے بیٹوں بھتیجوں کو اترواکر اس کے نوجوانوں کو پھانسیاں دلوادی تھیں سے لیکر مرتے دم تک بقول ان کے آزاد و عظیم تر بلوچستان کیلئے جدوجہد پر یقین رکھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے سب توں وڈے تے اصلی چوہدریوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ وہ خیر بخش مری جو ستر کے عام انتخابات میں ملک میں سب سے زیادہ یعنی دو لاکھ ووٹ لیکر قومی اسمبلی کی نشست جیت کر آنے والا منتخب رکن تھا آخر اس نے کیوں پارلیمان کو چھوڑ کر پہاڑوں کا راستہ اختیار کیا۔
اب وہ بلوچوں کا خان بابا بن چکا ہے ۔ پہلی بار ہوا کہ ہزاروں بلوچ نوجوانوں اور بلوچ خواتین نے ان کے جنازے کو کندھا دیا اور انہیں بلوچ شہداء کا قبرستان کہلانے والے نیوکاہان میں دفن کیا گیا، کبھی زندہ آتش فشاں والے پہاڑ بھی دفن ہوتے ہیں!