لاہور کی تاریخ، تہذیب اور ترقی ہمیشہ پانی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ دریائے راوی کبھی اس شہر کی زندگی اور خوش حالی کی علامت تھا۔ یہاں کے کنارے تہذیب پروان چڑھی، بستیاں بسیں اور معیشت نے جڑیں پکڑیں۔ لیکن آج صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ دریائے راوی اب محض ایک خشک اور آلودہ نالہ رہ گیا ہے، جس میں گھریلو اور صنعتی فضلہ بہایا جاتا ہے۔ زیرِ زمین پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو رہے ہیں، ٹیوب ویل مسلسل نیچے جاتے پانی کو کھینچ رہے ہیں، اور عالمی ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ اگر صورتحال یہی رہی تو لاہور آنے والے برسوں میں خشک سالی کے شکار شہروں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ایسے پس منظر میں راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (RRUDP) ایک امید کی کرن تھا۔ یہ محض ایک ہاؤسنگ اسکیم یا تجارتی پروجیکٹ نہیں تھا، بلکہ لاہور کو پانی، ماحولیات اور شہری منصوبہ بندی کے سنگین بحران سے نکالنے کی ایک جامع کوشش قرار دیا گیا۔
اصل وژن اور بنیادی اہداف
اس منصوبے کے تین بڑے اہداف طے کیے گئے تھے۔آبی تحفظ: لاہور کے ختم ہوتے آبی ذخائر کو دوبارہ ریچارج کرنا، صاف اور محفوظ پانی فراہم کرنا اور زیرِ زمین پانی پر انحصار کم کرنا۔دریا کی بحالی: راوی کو ایک مستقل، میٹھے اور آلودگی سے پاک پانی کا دریا بنانا تاکہ یہ دوبارہ شہر کی زندگی میں مرکزی کردار ادا کر سکے۔جدید منصوبہ بند شہر: ایسا شہر بسانا جو ماحولیاتی اصولوں کے مطابق ہو، جس میں سبزہ زار، اربن فاریسٹ، گرین بیلٹس اور جدید سہولیات شامل ہوں تاکہ بڑھتی آبادی کے دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔منصوبے میں تین بیراجوں، ایک مصنوعی جھیل، سات جدید واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور گرے واٹر کے استعمال کو لازمی قرار دینے جیسے اقدامات شامل تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لاہور دوبارہ ماحولیاتی توازن حاصل کرے اور آئندہ نسلوں کیلئے پانی محفوظ ہو۔گزشتہ کئی دہائیوں سے دریائے راوی میں بغیر صاف شدہ سیوریج اور صنعتی فضلہ شامل ہوتا رہا ہے۔ فیکٹریوں کے کیمیکلز، نالوں کا گندا پانی اور زرعی فضلہ براہِ راست دریا میں ڈالا گیا جس سے نہ صرف دریا بلکہ زیرِ زمین پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ لاہور کے پانی میں نائٹریٹ، ہیوی میٹلز اور دیگر زہریلے اجزا خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ آلودہ پانی لاکھوں شہری روزانہ پینے پر مجبور ہیں۔راوی منصوبے کا سب سے بڑا وعدہ یہی تھا کہ یہ اس تباہی کو پلٹ دے گا۔ جدید ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے فضلے کو صاف کر کے ہی دریا میں چھوڑا جائے گا اور صاف پانی کے ذریعے زیرِ زمین ذخائر کو ریچارج کیا جائے گا۔ اس عمل سے نہ صرف موجودہ آلودگی کا خاتمہ ممکن تھا بلکہ آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ پانی بھی فراہم ہو سکتا تھا۔
لیکن افسوس کہ یہ خواب زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکا۔ جب منصوبہ پنجاب اربن اینڈ رورل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ سے نکل کر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RUDA) کے سپرد کیا گیا تو اصل مقصد پسِ پشت چلا گیا۔ آبی تحفظ اور ماحولیاتی بحالی کی بجائے رئیل اسٹیٹ کی ڈیویلپمنٹ کو ترجیح دے کر اس منصوبے کی روح ہی تبدیل کردی گئی۔ زرعی زمینیں کسانوں سے کوڑیوں کے مول حاصل کی گئیں، سینکڑوں خاندانوں کو بے دخل کیا گیا اور اصل مقصد یعنی پانی اور ماحولیات پسِ پشت چلا گیا۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے واضح طور پر کہا کہ زرعی زمین صرف قانونی فریم ورک کے تحت ہی حاصل کی جا سکتی ہے، مگر یہاں 1894ءکے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ عدالت نے منصوبے کو غیر قانونی قرار دیا، لیکن بعد میں سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ پلٹ دیا گیا ۔
یہ المیہ کسی ایک حکومت یا جماعت تک محدود نہیں۔ 2013ءمیں شہباز شریف کے دور میں منصوبے کا آغاز ہوا، 2020ءمیں عمران خان کی حکومت نے اسے دوبارہ زندہ کیا اور آج کی حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ہر دور کی حکومت نے ماحولیاتی وژن اور عوامی مفاد کو نظر انداز کر کے طاقتور رئیل اسٹیٹ گروپس کو نوازا۔یہ اجتماعی ناکامی ہے۔ سیاسی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے اور طاقتور طبقات کو خوش کرنے میں لگی رہیں، مگر شہر کے باسیوں کیلئے پانی اور ماحولیات جیسا بنیادی مسئلہ نظر انداز ہوتا رہا۔دنیا کے کئی شہروں نے اپنے دریا بچائے ہیں۔ لندن کے دریائے ٹیمز کو جدید ٹریٹمنٹ پلانٹس اور شہری منصوبہ بندی کے ذریعے ایک بار پھر زندگی دی گئی۔ سنگاپور کے ’مارینا بیسن‘اور جنوبی کوریا کے ’چیونگ گی چیون ریور پروجیکٹ‘ آج دنیا کیلئے ماڈل ہیں کہ کس طرح آلودہ دریا کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔راوی منصوبہ بھی ایسا ہی ماڈل بن سکتا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ریور فرنٹ ڈویلپمنٹ بننے کا دعویٰ رکھتا تھا، مگر یہاں طاقتور مافیا اور کمزور حکمرانی نے ایک عظیم موقع ضائع کر دیا۔راوی ریور فرنٹ ڈویلپمنٹ دراصل لاہور کیلئے زندگی بخش منصوبہ تھا۔ یہ زیرِ زمین پانی کی کمی، آلودگی اور بڑھتی آبادی جیسے مسائل کا حل پیش کرتا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ ایک عبرت بن گیا کہ کس طرح بڑے ماحولیاتی وژن رکھنے والے منصوبے رئیل اسٹیٹ مفادات اور سیاسی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
تجاویز برائے اصلاح و احیا
نئی لینڈ ڈیلز اور اجازتیں روک کر آزاد فرانزک و ماحولیاتی آڈٹ، رپورٹ عوامی ڈیش بورڈ پر شائع کی جائے۔RUDA کا ریگولیٹر و آپریٹر کردار الگ، نئی ’راوی ریور اتھارٹی‘میں ماہرین اور ہر طبقہ فکر اور حکومت کے اثر سے آزاد شہریوں کو نمائندگی دی جائے ۔ جن مالکان اراضی سے ڈی سی ریٹ پر زمینیں acquire کی گئی ہیں اُن کو مارکیٹ کے ریٹ پر ادائیگی کی جائے ۔Managed Aquifer Recharge بیسنز، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، زیرِ زمین پانی پر سخت نگرانی۔ ضروری ہے کہ ان اقدام کو کامیاب کرنے کیلئے پانی کے صارفین کو پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کیے جائیں ۔اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ راوی میں کوئی فضلہ خواہ وہ گھریلو ہو یا صنعتی بغیر ٹریٹمنٹ کے ایک قطرہ بھی نہ جانے پائے۔
کنکریٹ بندوں کے بجائے سیٹ بیک لیویز، فلڈ پلین پارکس، اور نیچربیسڈ ہائبرڈ ماڈل بنائے جائیں چونکہ یہ کئی سو ارب روپے کا منصوبہ ہے اس لئے شفافیت کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے تھرڈ پارٹی آڈٹ لازمی قرار دیا جائے ۔ قرین انصاف ہو گا کہ متاثرہ کسانوں، مزارعین اور کرایہ داروں کیلئے معاوضہ و رہائش، خواتین اور معذور افراد کیلئے خصوصی اسکیمیں اسی پروجیکٹ کے اندر بنائی جائیں ۔ اس پروجیکٹ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ30فیصدکے تناسب سے گرین بیلٹ چھوڑی جائیں۔ یعنی کوئی تعمیر ایسی نہ ہو جس کا 30 فیصد حصہ گرین نہ ہو ۔اس پروجیکٹ میں شفافیت کیلئے ضروری ہے کہ سال میں کم از کم ایک دفعہ صوبائی اسمبلی میں اس کی کارکردگی اور مالی شفافیت کیلئے بحث کی جائے۔
اگر مذکورہ بالا تجاویزکو اپنایا گیا تو راوی منصوبہ لاہور کی بقا اور پورے خطے کیلئے ایک ماڈل بن سکتاہے ۔