• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی جانب سے دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑنے سے سیلابی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ملتان سمیت کئی علاقوں میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔سیلابی ریلے نے پنجاب کے جنوبی علاقوں میں تباہی مچادی۔ این ڈی ایم اے نے پنجاب میں اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا ہے۔ ملتان کے شیر شاہ فلڈ بند کے اندر درجنوں،بستیوں میں کھڑے پانی کے باعث مکانات گرنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ بارش کے باعث سیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔پنجاب میں گنڈا سنگھ والا،ہیڈ سلیمانکی،ہیڈ قادرآباد،خانکی،محمد والا میں پانی کی سطح انتہائی اونچے درجے پر ہے، دریا ئے ستلج،راوی اور چناب میں شدید طغیانی کے باعث کئی بند ٹوٹ گئے اور مزید درجنوں دیہات زیر آب آگئے، سیلابی ریلے سے بھارت کی طرف سے بارڈر پر لگائی گئی باڑ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئیں۔ بلوکی کےمقام پر مزید کئی دیہات زیر آب آنے کا خطرہ ہے،ملتان میں زمیندار بند ٹوٹنے سے پانی شہر کے قریب آگیا ہے۔ستلج بہاولپور میں سیلاب سے متعدد بند ٹوٹ گئے،بند اسلام سے ایک لاکھ کیوسک پانی کا ریلا 4تحصیلوں کو ڈبو گیا۔دریائے چناب میں تریموں کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب کے 25اضلاع اور 4155دیہات سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔اموات کی تعداد 56ہوچکی ہے،ریلیف کیمپس میں 60سے 70ہزار لوگ مقیم ہیں۔بھارت کی جانب سے آبی دہشتگردی کی پالیسی نے پاکستان کے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے واضح ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ بھارت ایک طرف تو اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑرہا ہےدوسری طرف عالمی برادری کو دھوکہ دینے کیلئے پیشگی اطلاع کے ڈرامے رچا رہا ہے۔یہ واٹر ٹیررازم نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان فوری طور پر عالمی عدالت انصاف میں بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کرے،اقوام متحدہ کے فورم پر اسے چیلنج کرے اور عالمی بینک جو اس معاہدے کا ضامن ہے کے سامنے اس معاملے کو پوری قوت سے اٹھائے۔کسی بھی قسم کی سستی یاکوتاہی ناقابل قبول ہے،کیونکہ یہ قومی سلامتی اور عوام کی بقا کا معاملہ ہے۔دوسری جانب متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات کو مزید منظم اور تیز تر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کے گھر،فصلیں اور روزگار تباہ ہوچکے ہیں۔فصلوں کی تباہی اور زمینوں کے زیر آب آنے سے کسان مکمل طور پر تباہ حال ہیں۔اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،جو معاشی اور سماجی بحران کو مزید گہراکردے گا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ زرعی ایمرجنسی نافذ کرے اور کسانوں کو فوری ریلیف فراہم کرے۔ اس سلسلے میں کسانوں کے بجلی کے بلز اور دیگر واجبات معاف کئے جائیں،ان قرضوں کو موخر کیا جائے اور کھادو بیج کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ زمینوں کی بحالی اور لائیو اسٹاک کی مفت فراہمی کیلئے سرکاری سطح پر جامع منصوبہ بندی کی جائے۔یہ وقت محض بیانات دینے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔بھارت کی واٹر ٹیررازم پالیسی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانا اور متاثرین کی بحالی کیلئے منظم کوششیں کرنا ناگزیر ہے۔حکومت،سول سوسائٹی اور نجی شعبے کو مل کر اس بحران سے نمٹنا ہوگاتاکہ نہ صرف متاثرین کی زندگیاں سنور سکیں بلکہ ملک کو غذائی اور معاشی بحران سے بھی بچایا جاسکے۔یہ ایک امتحان ہے کہ ہم کس طرح اپنے عوام کیلئے عزت،تحفظ اور خوشحالی یقینی بناتے ہیں۔یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ بھارت کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا ہمسایہ میسر ہے جو ہر وقت کم ظرفی کی کسی بھی حد سے آگے جانے کو تیار رہتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر سفارتی ذرائع سے پانی چھوڑنے کے متعلق ادھوری معلومات مہیا کرنا بھی اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بات صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کیلئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کہ بھارت اپنی اس قسم کی مذموم حرکتوں کے ذریعے معاملات کو مسلسل بگاڑ رہا ہے اور کسی بھی مرحلے پر اگر کوئی منفی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر ہوگی کیونکہ پاکستان اسے بھی اور بین الاقوامی برادری کو بھی بارہا یہ بتا چکا ہے کہ بھارت کا ایسا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت کے سدِ باب کیلئے تو ہمیں اقدامات کرنے ہی چاہئیں لیکن اس کیساتھ ساتھ اس بات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے کہ ایسے کون سے کام ہیں جنھیں کرنے سے ہم سیلاب اور طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں میں کمی لا سکتے ہیں۔ پوری بین الاقوامی برادری اس بات پر حیران ہے کہ کئی دہائیوں سے اس صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود ہم ایسے اقدامات کیوں نہیں کر رہے جو جانی و مالی نقصانات میں کمی کا باعث بنیں۔ وزیراعظم نے آئندہ برس کے مون سون کیلئے ابھی سے تیاری کرنے اور پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچانے کیلئے2ہفتے میں جامع لائحہ عمل تیار کرنے کی جو ہدایت کی ہے وہ خوش آئند ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا یہ بات بس ایک ہدایت اور اعلان کی صورت میں ہی کاغذات میں دب جائے گی۔نیز آپریشن سندور میں ناکامی کے بعد بھارتی حکومت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پہلگام فالس فلیگ کی جگ ہنسائی کے بعد بھارتی میڈیا نے نیا ڈرامہ رچایا کہ ممبئی ٹریفک کنٹرول روم کو شہر کے مختلف مقامات پر بم نصب ہونے کی کالز موصول ہوئیں۔ اس جھوٹی اور من گھڑت خبر کے ذریعے پاکستان پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی گئی، حسب سابق اور حسب معمول اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ثبوت تو تب ہی پیش کیا جا سکتا ہے جب ایسی کوئی زمینی حقیقت ہو۔ بھارت کے اس طرح کے پروپیگنڈے کا مقصد اندرونی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا اور خوف کی فضا پیدا کر کے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔حالیہ دنوں میںبھارتی میڈیا 3 پاکستانی شہریوں کو، جو کمبوڈیا روزگار کیلئے جا رہے تھے، دہشتگرد قرار دے چکا ہے۔یہ الزام بھی بے سر و پا ثابت ہوا۔

تازہ ترین