دنیا بھر میں قیدیو ں کے حقوق زیر بحث آتے ہیں۔ اسیری کے دوران انکی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران اس حوالے سے ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ قیدیوں کو اپنے شریک سفر کیساتھ خلوت میں وقت گزارنے کی اجازت دی گئی۔ آسٹریلیا، کینیڈا، برازیل، فرانس اور یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی قیدیوں کو اپنے شریک حیات کے حقوق ادا کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی تھی۔ پاکستان میں بھی کئی بار اسکا آغاز کیا گیا مگر حال ہی میں وزیرازعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یہ پالیسی متعارف کروائی کہ اگر کسی شخص کو پانچ سال یا اس سے زیادہ سزا ہوئی ہے تو وہ اپنے اہلخانہ کیساتھ سال میں تین مرتبہ فیملی روم میں وقت گزار سکتا ہے۔ ہر بار ملاقات کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ تین دن اور راتوں پر محیط ہوگا، قیدی خواتین کے شوہر یا مرد اسیران کی بیویاں ملاقات کی درخواست دے سکتی ہیں۔ اس دوران نہ صرف یہ کہ 6سال سے کم عمر بچے اپنے والدین کیساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ قیدی اور اسکے اہلخانہ کو کھانا بھی حکومت کی طرف سے فراہم کیا جائیگا۔ اس ملاقات کی اجازت کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ اگر جرم ایک شخص سے سرزد ہوا ہے تو سزا پورے خاندان کو کیوں دی جائے۔ اسی طرح قیدیوں کو نہ صرف اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت ہوتی ہے بلکہ اب ٹیلیفون پر بات کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے تمام جیلوں میں باقاعدہ ٹیلیفون بوتھ لگائے گئے ہیں۔ مگر ہر گزرتے دن کیساتھ قیدیوں کے حقوق کا شعور اور اِدراک بڑھتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک میں اس حوالے سے بحث ہو رہی ہے کہ قیدیوں کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنیکی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی بعض ریاستوں میں قیدیوں کو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس چلانے کی اجازت تھی۔ ٹیکساس کی رہائشی Delores Eggerson کا بیٹا جو Arkansasمیں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے اسکی والدہ کئی سال سے اسکا فیس بک اکائونٹ چلارہی ہیں جس پر اسکی پرانی تصاویر، اسکے دوستوں کے پیغام اور نیک خواہشات شیئر کی جاتی ہیں تاکہ باہر کی دنیا سے اسکا رابطہ برقرار رہے۔ ان اکائونٹس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا، باقاعدہ تحریری طور پر جیل انتظامیہ سے اجازت لی جاتی ہے، لیکن پھر بھی امریکہ میں فیڈرل بیورو آف پرزن اس سلسلے کو یکسر ختم کرنیکا فیصلہ کرچکا ہے کیونکہ قیدیوں کے ایما پر سوشل میڈیا اکائونٹس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں گزشتہ برس اس حوالے سے طویل بحث ہوئی کہ قیدیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے بتایا کہ 2001ء میںاسکے حلقہ سے تعلق رکھنے والی شہری Zoey McGillاور اسکے بیٹے Jack Woodley پر جان لیوا حملہ کیا گیا۔بیٹا خنجرسے کئے گئے وار کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا جبکہ ماں زخمی ہوگئی۔ حملہ آوروں کو سزا تو ہوگئی مگر کچھ عرصہ قبل ایک ملزم نے ڈیزائنر ٹی شرٹ پہن کر اپنی ٹک ٹاک اپ لوڈ کی تو اس ماں کے زخم پھر سے تازہ ہوگئے۔
میں نے کئی دن پر محیط تحقیق کے دوران یہ سراغ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ کیا کسی ملک میں سزا یافتہ قیدیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنیکی اجازت ہے تو کوئی ایک بھی مثال نہیں ڈھونڈ سکا۔یہ اعزاز وطن عزیز پاکستان کو حاصل ہے کہ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں مگر انکے سوشل میڈیا اکائونٹس بدستور آزاد ہیں۔ آئے روز انکے ٹوئٹر ہینڈل اور فیس بک پیج سے پیغامات اور بیانات جاری ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ سب کیسے چل رہا ہے؟ کیا جیل انتظامیہ نے عمران خان کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی سہولت دے رکھی ہے یا پھر بشریٰ بی بی کے جنات کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی ہے؟ یقیناً جیل سے ٹویٹ لکھ کر باہر بھیجنا ممکن نہیں تو کیا نعیم پنجوتھا، علیمہ خان یا کوئی اور ان کے پیغامات لیکر آتا ہے اور امریکہ پہنچاتا ہے جہاں جبران الیاس، اظہر مشوانی یا کوئی اور عمران خان کے نام سے بیان جاری کرتا ہے؟ بالفرض ایسا ہے بھی تو یہ خطرناک صورتحال ہے۔ دو افراد آپس میں بات کررہے ہوں، آپ ان دونوں کو الگ کرکے پوچھیں کیا بات ہورہی تھی تو انکی بیان کردہ تفصیل مختلف ہوگی اور جب کوئی تیسرا شخص ،چوتھے اور پانچویں آدمی کو یہ پیغام پہنچائے گا تو بات یکسر تبدیل ہو جائیگی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان کے سوشل میڈیا اکائونٹس کوئی اور استعمال کررہا ہے۔ کوئی ’’رانگ نمبر‘‘ پھرکی لے رہا ہے اور لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کا اکائونٹ ہیک کرلیا جائے تو کیا ایسی صورت میں عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے جاری ہونیوالے بیانات کو انکا موقف اور بیانیہ سمجھا جاسکتا ہے؟ انکے سوشل میڈیا اکائونٹس، جن پر پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے، سےلوگوں کو تشدد پر اُکسایا جاتا ہے کل کو 9مئی جیسا واقعہ پیش آجائے یا ملک میں بدامنی پھیل جائے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟ عمران خان تو کہیں گے میں جیل میں تھا مجھے کیا معلوم کس نے میرے نام سے کیا ٹویٹ کردی۔اور ماضی میں ایسا ہوچکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، 26مئی2024ء کو عمران خان کے ٹوئٹر اکائونٹ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے ایک ٹویٹ اور ویڈیو پوسٹ کی گئی جس پر بہت ہنگامہ ہوا۔ رئوف حسن اور علی محمد خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ عمران خان تو جیل میں ہیں ،انکا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں۔8جون 2024ء کو اڈیالہ جیل میں مقدمے کی سماعت کے دوران جب صحافیوں نے سوال کیا تو خود عمران خان نے اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی اور کہا کہ میں جیل میں بیٹھ کر کوئی ویڈیو کیسے اپ لوڈ کرسکتا ہوں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عمران خان کو جیل میں تمام بنیادی حقوق دیئے جائیں ، بشریٰ بی بی سے انکی ملاقاتوں کا بھی اہتمام کیا جائے مگر ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس بہت بڑا سیکورٹی رسک ہیں ۔میں حیران ہوں کہ پی ٹی اے، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور دیگر متعلقہ ادارے ابھی تک کیوں غفلت کا شکار ہیں۔ ’’ایکس‘‘ اور ’’میٹا‘‘ کی انتظامیہ کو باضابطہ طور پر کیوں نہیں کہا جاتا کہ جب تک عمران خان جیل میں ہیں انکے سوشل میڈیا اکائونٹس معطل کردیئے جائیں۔