چار سال پہلے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد تحریک طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو عام تاثر یہی تھا کہ طالبان کے پہلے دور کی طرح ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان میں مثالی برادرانہ تعلقات قائم ہوں گے۔ پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ دونوں ملک زندگی کے ہر شعبے میں مستحکم روابط قائم کرکے ترقی اور خوشحالی کا سفر طے کریں گے۔ بھارت کی مسلم کش پالیسیوں کے باعث امارات اسلامی افغانستان اس سے فاصلہ رکھے گی جبکہ پاکستان ہر لحاظ سے اس کیلئے قابل ترجیح ہوگا۔ تاہم افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوجانے اور اس میں بتدریج شدت رونما ہوتے چلے جانے کی وجہ سے ایسا ہونہیں سکا۔ بات چیت کے ذریعے سے معاملات میں بہتری کی کوششیں اگرچہ برابرکی جارہی ہیں اور افغان حکومت مسلسل یہ دعوے بھی کررہی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہورہی لیکن واقعاتی صورتحال اسکے برعکس ہے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف پاک فوج کی کارروائیوں میں باجوڑ اور جنوبی وزیر ستان میں مجموعی طور پر 35دہشت گردوں کی ہلاکت ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران پاک فوج کے 12 جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔وزیر اعظم نے ان واقعات کے تناظر میں اس دعوے کیساتھ کہ پاکستان میں دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں، دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ افغانستان، خوارج دہشت گردوں یا پاکستان میں سے کسی ایک انتخاب کرلے۔ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کا دعویٰ بے بنیاد نہیں۔ اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں جنکی بنا پر رواں سال مارچ کے مہینے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے انکشاف کیا تھا کہ افغانستان میں 20 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو کابل، خطے اور پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل حکام داعش کے خلاف تو کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن القاعدہ سے منسلک رہنے والی ٹی ٹی پی نیز بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ سمیت دیگر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں ناکام ہیں۔منیر اکرم نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں چھ ہزار جنگجو موجود ہیں اور یہ افغان سرزمین استعمال کرنیوالی سب سے بڑی کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے۔انکا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے ساتھ تعاون کر رہی ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کا نام لیے بغیر منیراکرم نے یہ بھی کہا تھا کہ ان گروہوں کو پاکستان کے دائمی دشمن کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ تاہم کابل میں برسرِ اقتدار طالبان حکمراں پاکستان میں دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کے معاملے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کابل میں نیوز کانفرنس کے دوران طالبان آرمی چیف فصیح الدین فطرت نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے پاکستان ہی میں ہیں اور کچھ علاقوں پر اس کا کنٹرول بھی ہے جہاں سے وہ پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت منظر عام پر لائے جائیں۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے داخل ہونیوالے سینکڑوں افراد کو اب تک ہلاک کیا جاچکا ہے۔زخمی اور گرفتار ہونیوالے بھی یقیناََ بہت بڑی تعداد میں ہونگے۔ ان افراد کے کوائف ، شناخت، تصاویر اور بیانات ریکارڈ پر لاکر افغان حکمرانوں اور پوری دنیا پر حقیقت واضح کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہو تو سیٹلائٹ کے ذریعے افغانستان کے اندرموجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور تربیتی سرگرمیوں وغیرہ کی تصاویر بھی لی جائیں اور انہیں دنیا کو دکھایا جائے ۔ سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل نمائندے نےافغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں جو معلومات پیش کی ہیں، انہیں اصل حوالوں کیساتھ پوری عالمی رائے عامہ کے سامنے لایا جائے۔ ان شواہد کے ساتھ پاکستان مذاکرات کی میز پر اپنا مؤقف ثابت کرنے کے حوالے سے لازماً بہتر پوزیشن میں ہوگا۔ معاملات کو بہتر بنانا بلاشبہ دونوں ملکوں کے مفادات کا تقاضا ہے۔ امن اور استحکام ہر ملک کی ضرورت ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کی باتیں جو افغانستان میں اب بھی ہوتی ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ بے معنی ہوچکی ہیں۔ وقت کا پہیہ کبھی الٹا نہیں گھومتا۔ امریکہ کی فوج کشی کے بعد مشرف دور میں پاکستان نے جو پالیسیاں بظاہر مجبوراً اپنائیں، ان کا شکوہ بھی اب کسی مسئلے کا حل نہیں۔پاکستانی قوم کے اس تاریخی کردار کا بہرکیف انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے چار دہائیوں تک کم و بیش چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی پوری کشادہ دلی سے میزبانی کی۔لہٰذا پاکستان کے اس سراسر جائز مطالبے کو تسلیم کرکے اور اس کیلئےفیصلہ کن اقدامات کرکے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دی جائے، افغان حکومت کو دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات میں حائل بنیادی رکاوٹ کو جلد از جلد دور کردینا چاہئے ۔ اس کیساتھ ساتھ دونوں ملکوں کو پورے کھلے دل سے سنجیدہ اور مخلصانہ بات چیت کا سلسلہ شروع کرکے زندگی کے تمام شعبوں میں باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہئیں کیونکہ تلخیوں، کشیدگی اور کشمکش کا جاری رہنا اگرچہ دنیا کے کسی بھی ملک کیساتھ اچھا نہیں لیکن جغرافیائی قربت رکھنے والے ملکوں کیلئے تو خاص طور پر نہایت نقصان دہ ہے کیونکہ دوست تو بدلے جاسکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔