• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

(زاہدہ حنا)

زاہدہ حنا، جیّد و ممتاز ادیبہ، ناول نگار، فسانہ کار، کالم نویس اور دانش وَر، پاکستان اور اُن کی پیدایش کا سال یک ساں، 1947ء ہے۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد کراچی میں قیام ہوا، نو برس کی عُمر میں پہلی کہانی تخلیق کی۔ 

کراچی یونی ورسٹی سے تعلیمی مراحل طے ہوئے، پندرہ برس کی عُمر میں ’’انشاء‘‘ نامی ادبی جریدے میں مضمون کی اشاعت کا اعزاز حاصل کیا، جون ایلیا سے شادی، ریڈیو پاکستان، بی بی سی اور وائس آف امریکا سےانسلاک، کئی اعزازات سے سربلند۔ 2005ء میں تمغۂ حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا، مگر جمہوری اقدارکی پاس داری، علم برداری کےبا وصف لینے سے انکارکردیا۔ 

حق گوئی وحق پرستی شعار، جسے قلم ہی سے نہیں، عمل سے بھی ثابت کیا۔ بلاشبہ جون ایلیا جیسے نام وَر شاعر سے ازدواجی تعلق کی چکاچوند میں اُن کی بےپناہ تخلیقی صلاحیت کو اُس طرح نہیں سراہا گیا، جس کا حق رکھتی ہیں۔

’’نمشکار‘‘ ایک ایسافن پارہ ہے، جس میں رابندر ناتھ ٹیگور کے یادگار افسانے ’’کابلی والا‘‘ کے کابل سے تعلق رکھنے والے لازوال کردار، رحمت بابا کو ایک کردار کے طور پر برت کر کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے، جو ایک بار پھر افغانستان میں نمودار ہوتا ہے۔ کلاسیکی انداز میں تحریر کی گئی ایک عُمدہ کہانی۔

کُم کُم بہت آرام سے ہے، میری دُلاری دادی ماں!!

کئی ہفتوں بعد آج جب مَیں کابل واپس پہنچی تو ڈاک ملی۔ گھر سے آپ کے علاوہ بھی کئی چِٹھیاں آئی ہیں۔ ماتا جی اور بھیا کی، اوما دیدی اور سشمتا کی۔ پر، سب سے پیارا پَتر آپ کا ہے، جس میں آپ نے اتنے دِنوں سے چِٹھی نہ لکھنے پر مجھے کونے میں منہ دے کر کھڑا کردینے، کان مروڑنے اور مرغا بنا دینے کی دھمکیاں دی ہیں۔ آپ کی یہ ساری ڈانٹ پھٹکار پڑھ کر مجھے لگا، جیسے مَیں چھوٹی سی ہوگئی ہوں اور آپ کی گود میں چڑھی بیٹھی ہوں۔ آپ اپنی جھولا کرسی میں ہل رہی ہیں اور آپ کے ساتھ مَیں بھی جُھول رہی ہوں۔ 

آپ مجھے کہانیاں سُنا رہی ہیں۔ برابر میں رکھی ہوئی تپائی پر سفید چینی کا بڑا سا پیالہ دھرا ہے، جس کا کنارا آپ کی آبِ رواں کی ساڑی کے کناری جیسا نیلا ہے۔ پیالے میں سےآپ اخروٹ، کشمش یا بادام کا دانہ اُٹھا کر میرے منہ میں رکھ دیتی ہیں، مَیں شرارت سے آپ کی انگلیاں دانتوں میں دبا لیتی ہوں۔ آپ مجھے گھورتی ہیں اور پھر مجھے اپنے بیتے جنموں کی کہانیاں سُنانے لگتی ہیں، جب آپ ہنس تھیں اوراُڑتی ہوئی کیلاش کی چوٹی پرجا اُتری تھیں، جب آپ مچھلی تھیں اور گنگا، جمنا، سرسوتی اور ساردا میں تیرتی پِھرتی تھیں، جب آپ ہزار پتّوں والا کنول تھیں اورآپ کی سُندرتا دیکھنے راجے، مہاراجے آتے تھے۔ اور…ایک تو بالکل سچ مُچ کا قصّہ تھا۔ 

آپ کے بچپن کی کہانی، جو کابل کے بنجارے رحمت کی تھی، پہلی مرتبہ اُسے دیکھ کر آپ ڈرگئی تھیں اور سمجھی تھیں کہ اُس کی جھولی میں چھوٹے چھوٹے بچّے بَھرے ہوئے ہیں، پھر آپ کی اُس سے دوستی ہوگئی تھی۔ وہ آپ کی باتیں سُنتا اور آپ کا چھوٹا سا آنچل بادام، کشمش اور اخروٹ سے بھر دیتا۔ ایک دن اُس نے آپ سے کہا تھا کہ اُس کی چھوٹی سی جھولی میں بڑا سا ہاتھی ہے۔ 

آپ نے بتایا تھا کہ جس دن رحمت بابا آٹھ برس کی جیل کاٹ کر آیا، اُسی دن آپ کے پھیرے ہونے والے تھے، وہ کسی دوسرے بنجارے سے آپ کے لیے میوہ مانگ کر لایا تھا اور آپ کو وہی میوہ دان کرکے چلا گیا تھا۔ اُس کا قصّہ جب آپ نےمجھے پہلی بارسُنایا اور آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے، تب مَیں نے جانا تھا کہ بڑے بھی بچّوں کی طرح روسکتے ہیں۔ آپ نے بتایا تھا کہ رحمت بابا کی بھی آپ برابر کی ایک بیٹی تھی، جو کابل میں رہتی تھی۔

اُس کے پاس اُس کی تصویر اُتروانے کے لیے پیسےنہ تھے یا شاید اُس زمانے میں فوٹوگرافر کابل میں نہ پائے جاتے ہوں، تو اُس نے اپنی بیٹی کے ہاتھ کا رنگین چھاپا ایک کاغذ پر لے لیا تھا اور اُس کاغذ کو سینے سے لگائے پِھرتا تھا، بالکل اُسی طرح جیسے پِتاجی میری تصویر اپنے والٹ میں رکھتے تھے۔ آپ کے پِتا جی اور میرے بڑے نانا جی نے رحمت بابا کو کابل جانے اور بیٹی سے ملنے کے لیے کچھ رقم بھی دی تھی، جس پر بڑی نانی جی بہت ناراض ہوئی تھیں۔ آپ نے بتایا تھا کہ اُس کے بعد پھر وہ کبھی نہیں آیا۔

اِن دنوں جب درد سے چیختے، خون میں ڈوبے ہوئے گھائل یا دَم توڑتے لوگ میرے پاس لائے جاتے ہیں، تو مَیں سوچتی ہوں کہ اب سے ستّربرس پہلے اگرآپ نے رحمت بابا کی جھولی کے بادام اور پستے نہ کھائے ہوتے، اگر میرے بڑے ناناجی نے اُس کی کہانی نہ لکھی ہوتی تو کیا مَیں یہاں کابل یا قندھار میں، ہرات یا ہلمند میں ہوتی؟ شاید نہیں، بلکہ یقیناً نہیں۔

پچھلے اکتوبر کے وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں، جب کابل پر امریکی ہوائی جہازوں نے بم گرانے شروع کیے تھے اور ٹیلی وژن پر وہ بم باری دکھائی جانےلگی تھی۔ آپ نے اپنی جھولا کرسی برآمدے سے اُٹھوا کر لاؤنج میں رکھوالی تھی اور سارا وقت ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی رہتیں۔ ماتا جی، سشمتا، بھیا سب ہی ناراض ہوتے کہ آخر آپ کیوں اپنی آنکھوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ یہ تو مَیں تھی، جو اصل بات جانتی تھی، آپ کی دوستی تو بس مجھ سے رہی ہے یا شاید مَیں نے ہوش سنبھالتے ہی آپ کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا اور کسی کو آپ کے قریب پھٹکنے نہیں دیا تھا۔ 

ظالم جاگیرداروں کی طرح مَیں نے ہمیشہ آپ سے پریم کا لگان پائی پائی کر کے وصول کیا۔ کوئی آپ کواُس طرح جانتا ہی نہیں، جیسےمَیں جانتی ہوں۔ ساٹھ برس سے بھی پہلے بڑے ناناجی نے رحمت کابلی والا کا جو قصّہ لکھا تھا، دنیا والے اُس کہانی کے عاشق ہیں۔ پر ہمارے گھر میں آپ کے اور میرے سوا کوئی اُس کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ کہانی آپ کو اِس لیے یاد رہی کہ آپ اُس کی ہیروئن تھیں اور مجھے اِس لیے کہ میں نے اَن گنی مرتبہ آپ کی گود میں بیٹھ کر وہ قصّہ سنا ہے۔ 

امریکی بم باری کے خلاف کول کٹا، شما کیجیے گا، مجھے یاد نہیں رہا تھاکہ کلکتہ، بمبئی اور مدراس کے نئے نام سُن کر آپ کو غصّہ آجاتا ہے، ہاں تو جب کلکتہ کی سڑکوں پر لاکھ لوگوں کا جلوس نکلا تو مَیں بھی اس میں گئی تھی، ٹیلی وژن پر میری ایک جھلک دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئی تھیں اورجلوس میں نہ جانے پر آپ نے بھیا اور سشمتا کوطعنے دیےتھے۔ 

پھر جب ریلیف ورک کے لیے کابل کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی طرف سے ڈاکٹروں کی مانگ آئی اور مَیں نے والنٹیر کیا تو یہ صرف آپ تھیں، جنہوں نے مجھے آشیرواد دی، ورنہ گھر میں تو سب ہی ناراض ہوئے تھے۔ ماتاجی کا غصّے سے بُرا حال تھا۔ ’’بھلا چلتا ہوا اسپتال چھوڑ کر یوں موت کے کنویں میں کود جانا کس وید، کس گیتا میں آیا ہے؟‘‘ 

اور آپ کی خوشی دیکھ کر اُنہوں نے کہا تھا۔ ’’تمہاری دادی ماں تو سٹھیا گئی ہیں، لیکن تمہیں کیا ہوا ہے کہ اِس مارا ماری میں جارہی ہو؟‘‘ مجھے اِس بات کا دُکھ ہوتا ہے دادی ماں کہ بڑے ناناجی کی اور آپ کی طرح میری ماتا جی آدرش وادی نہیں ہیں۔ وہ ایک پریکٹیکل بزنس وومن ہیں، نہ ہوتیں تو پِتا جی کے چلے جانے کے بعد اُن کا اتنا بڑا بزنس کیسے سنبھالتیں۔ مَیں آپ پر اور بڑے نانا جی پر گئی ہوں، تب ہی جاگتی آنکھوں سپنے دیکھتی ہوں۔

لیجیے دادی ماں! مَیں تو چِٹھی لکھنے کی بجائے کتاب لکھنے بیٹھ گئی۔ شاید ایسا ہے کہ مَیں نے یہاں آ کر اِتنے دنوں میں آپ کے نام کوئی چِٹھی نہیں بھیجی، تو اب اُس کی کمی پوری کر رہی ہوں۔ مَیں جانتی ہوں کہ کابل آپ کو بِن دیکھے ہی اچھا لگتا ہے۔ آپ نے مجھے بتایا ہے کہ بچپن میں آپ نے رحمت بابا کی بیٹی کو اپنی اَن دیکھی گوئیاں بنا لیا تھا۔ خیالوں میں اُس کی گڑیا سے اپنے گڈے کا بیاہ رچاتی تھیں۔ گڈا آپ کا اور گڑیا اُس کی۔ 

سو، گڑیا بیاہ کر کابل سے کلکتہ چلی آتی تھی۔ بڑے ناناجی کہانیاں لکھتے تھےاور آپ اُن کی اکلوتی چہیتی بیٹی تھیں، آپ نے اگر اپنا اکیلا جیون کہانیوں سے بہلایا تو اِس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ لیکن بڑی نانی جی نے جب آپ سے یہ باتیں سُنی تھیں تو ناراض ہوگئی تھیں۔ بھلا ہندو گڈے اورمسلمان گڑیا کا بیاہ کیسےہوسکتا ہے۔ پھیرے ہوں گے یا نکاح؟ بڑے نانا جی نے یہ بات سُنی، تو بہت خفا ہوئے تھے۔ ’’تم عورتوں کو فساد پھیلانے کے سوا بھی کچھ آتا ہے؟ کم سے کم گڈے، گڑیا کو تو دین دھرم کے چکر میں مت ڈالو۔‘‘ 

اُنہوں نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا تھا اور بڑی نانی جی بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی تھیں۔ آپ نے یہ بات مجھے ہنس ہنس کرسنائی تھی۔ ’’پِتا جی کا دل بہت بڑا تھا، اُس میں ایشور،اللہ، ہندو، مسلمان سب رہتے تھے۔‘‘ آپ نے بڑے ناناجی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا اورجب مَیں نے میڈیکل کالج میں پہلی مرتبہ Heart Dissection کیا تواس میں بےاختیار اللہ، ایشور، ہندو مسلمان کو ڈھونڈا تھا، لیکن وہاں تو صرف مسلز، وینز اور آرٹریز تھیں۔

مَیں جب کابل کےلیےچلی ہوں، تو آپ پر ارتھنا کرنے برلا مندر گئیں، پھر آپ ناخدا مسجد بھی ہو آئیں۔ گھر میں جب ڈرائیور نے یہ بتایا توسب حیران ہوگئے تھے۔’’یہ مسجد جانے کی کیا تُک تھی؟‘‘ ماتا جی نے جھنجھلا کر کہا تھا۔ ’’ارے مجھے خیال سوجھا کہ یہ مسلمانوں کے مُلک جارہی ہے، تواِس کی رکھشا کے لیے مسجد ہو آؤں۔ اللہ سے کہہ آؤں کہ میری پوتی کا دھیان رکھیو۔‘‘ ماتاجی کا چہرہ آپ کی اس بات کو سُن کر لال ہوگیا تھا اور آپ نے بہت سادگی سے پوچھا تھا۔ ’’لوبہو! اِس میں کیا برائی ہے۔ میرے پِتا جی تو باؤل فقیروں کی منڈلی گھر بلاتے تھے۔ جھوم جھوم کر اُن کے بھگتی گیت سُنتے تھے، دان پن کرتے تھے۔‘‘ 

آپ کی یہ بات سُن کر ماتا جی تیز قدموں سے چلتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھیں اورمَیں سب کی نظروں میں چور بن گئی تھی، جس کی وجہ سے یہ ساری تناتنی ہوئی تھی۔ میری محبّت میں آپ مندر گئیں، مسجد گئیں، حالاں کہ خُود تو آپ کچھ ناستک سی ہیں، صبح وشام دیوی، دیوتاؤں سے آپ کا جھگڑا چلتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ بڑے ناناجی بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ تب ہی تو میرے ساتھ بھی خاصی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ میری سکھیاں شاید اِسی لیے مجھے گڑبڑ جھالا کماری کہتی ہیں۔ آپ نے ایشور اور اللہ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ پربات کرکے بہت اطمینان سے مجھے کابل بھیج دیا، شاید ایک مرتبہ بھی آپ خواب میں اس شہر کو دیکھ لیتیں تو مجھے کبھی نہ آنے دیتیں۔ 

یہاں ہرگھر کی دیوار پر موت کا سایہ ہے، ہر گلی اورہر بازار میں خون کی لکیریں ہیں۔ رحمت بابا تو جانے کب کا رخصت ہوا، اُس کی بیٹی بھی اب کہیں نہیں رہی ہوگی۔ اُس کی اولاد جانے سوویت سینکوں کی گولی سے چھلنی ہوئی یا امریکی بم باری سے یا شاید فاقے سے مرگئی ہو۔ یہاں ہر طرف تباہی کا راج ہے، اِس مُلک کا ہر شہر کھنڈر ہے۔ مَیں گھر سے چلی ہوں تو آپ نے میرے ہاتھوں پر پیار کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اِن سے سارے گھاؤ سی دینا۔‘‘ لیکن دادی ماں یہاں مَیں گھاؤ سیتے سیتے تھک گئی، پر گھائل ختم نہیں ہوتے۔ 

مَیں نے اِن مہینوں میں آپ کو یا کسی کو بھی کوئی چِٹھی نہیں بھیجی، تو اِس لیےکہ ہمیں تو نوالہ کھانے اور نیند لینے کی فرصت نہیں تھی۔ بھارتی، جرمن اور جاپانی ڈاکٹروں کی ہماری ٹیم شہر شہر پِھرتی رہی ہے۔ ہم صُبح سے شام تک اور رات کو جنریٹروں کی روشنی میں بچّوں، عورتوں اور مَردوں کے بدن سے کلسٹر بموں کے ٹکڑے اور ریزے چُنتے رہے، بارودی سرنگوں سے اُڑ جانے والے ہاتھوں اور پیروں کے گھاؤ سیتے رہے۔ خون کی بُو میرے اندر بس گئی ہے۔ 

پہلے پہل میرا جی چاہا کہ اس بُو سے چھٹکارے کے لیے اپنے ہاتھوں اور کپڑوں پرخُوشبو کی آدھی شیشی انڈیل لوں، لیکن پھر مجھے شرم آئی۔ جنہیں مہینوں اور برسوں سے ایک وقت بھی پیٹ بھر کھانا نہ ملتا ہو، جن کے نتھنوں میں صرف خون اور بارود کی بُو ہو، ان کے بیچ رہتے ہوئے صاف پانی سے گندے ہاتھ دھونا بھی نوابی ٹھاٹھ لگتا ہے۔

ایک سمے تھا، دادی ماں کہ بامیان اور بلخ تک ہمارے اشوک اور کنشک کا راج تھا، لیکن دھرتی پر کب کسی ایک راجا کا راج رہا ہے۔ عرب آئے، تُرک آئے، چنگیزخان کی فوجیں آئیں، اُس نے اپنے پوتے کو بامیان فتح کرنے بھیجا، لیکن وہ لڑکا لڑائی میں کام آیا۔ چہیتے پوتے کی موت چنگیز خان کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھی کہ اُس نے بامیان کی وادی میں کسی ایک جان دار کو جیتا نہ چھوڑنے کی سوگندھ کھائی۔ سو، کوئی مرد، عورت، بچّہ، بوڑھا جیتا نہ چھوڑا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ماؤں کےپیٹ چیر کر اُن کے بچّے نکالے گئے اور ٹکڑے کر دیے گئے۔ 

بامیان کی گلیوں میں پھرنے والے کتے، بلیاں زندہ نہیں چھوڑے گئے اور اِس کی ہواؤں میں اُڑنے والے پرندے بھی تیروں سے چھید دیے گئے۔ ہم بامیان گئے، تو کچھ دیر کے لیے وہاں گئے، جہاں پہاڑی کی اونچی اونچی چٹانوں کو تراش کرمہاتما بدھ کی مورتیاں بنائی گئی تھیں۔ چنگیز خان نے پوتے کے انتقام میں بامیان کا کوئی جان دار جیتا نہیں چھوڑا تھا۔ طالبان نے اپنا غصّہ پتھر کی مورتیوں پر نکالا۔ مَیں نے ایک جاپانی ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے، لیکن میری آنکھوں میں نمی بھی نہیں آئی۔ 

آپ خُود سوچیں دادی ماں کہ جنہوں نے اپنے جیتے جاگتے لوگ، اپنی پوری نسل خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردی، اُن سے اس بات کی کیا شکایت کہ انہوں نے مہاتما بدھ کی وہ مورتیاں ڈائنامائٹ سے، توپ کے گولوں سے کیوں اُڑا دیں۔ چنگیزخان اوراُس جیسے دوسرے بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کاغصّہ ان شہروں پر اُترتا تھا، جو اُن کے راستے میں آتے تھے اور ان کی فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھاتے تھے لیکن دادی ماں! امریکا کا غصّہ تو قندھار سے قندوز اور خوست سے قلعۂ جنگی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لڑاکا ہوائی جہاز تورا بورا پر بم باری کرتے ہیں۔ 

یہاں کی دھرتی میں بارودی سرنگیں یوں بوئی گئی ہیں، جیسے کسی کھیت میں بیج چھڑک دیے جاتے ہیں۔ موت کے بیج۔ بچّے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب ہی اِن کا نوالہ بنتے رہتے ہیں۔ جن کے ٹکڑے اُڑ گئے، لوگ اُنہیں خوش نصیب سمجھتے ہیں، ورنہ یہاں کسی کا ایک ہاتھ نہیں اور کوئی دونوں ہاتھ کھو بیٹھا ہے، کسی کی ٹانگیں نہیں رہیں۔ مَیں نے وہ بھی دیکھے، جن کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیرغائب ہیں۔ یوں جانیں کہ جیتا جاگتا انسان، گوشت کا ایسا لوتھڑا بن گیا ہے، جسے بھوک لگتی ہے، جو سوچ سکتا ہے اور لمحہ لمحہ اپنے ہونے کا دُکھ بھوگتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ مجھے برسات سے کیسا عشق تھا، جہاں چھینٹا پڑا اور مَیں باؤلی ہوئی۔ ماتاجی سے کیسی جِھڑکیاں سُنتی تھی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ بارش کے ساتھ مَیں بھی ندی نالوں میں، دریا میں چل نکلوں۔ ہاتھ پاؤں مٹی میں سِنے ہوئے، کپڑوں سے پانی ٹپکتا ہوا۔ آپ ساڑی کا پلو اُڑسے ہوئے میرے پیچھے آواز دیتی پھرتیں۔ ’’اری کُم کُم، چل اندر چل، اشنان کر کے کپڑے بدل، بیمار پڑجائے گی۔‘‘ ساتھ ہی آپ ہنستی جاتیں، بڑبڑاتی جاتیں۔ ’’اِس گھر میں بس ایک کُم کُم ہے، جس کا دھرتی سے سچا ناتا ہے، ورنہ میرے گھر کے سارے بچّے ولایتی ہوگئے، کھڑکیوں سے جھانک کر مینہ کا برستا ہوا جھالا دیکھ لیتے ہیں۔ 

رسوئیا نے دال بھری کچوریاں تل دیں تو اُنہیں میز پر بیٹھ کر کھا لیا، لو بھیا، برسات کے مزے لوٹ لیے۔ ارے بچّے بھلا کہیں ایسے ہوتے ہیں۔‘‘ ہم دونوں جب پانی میں بھیگتے ہوئے، چَھپ چَھپ کرتے اندر آتے اور چمکتی ہوئی ٹائلوں والا فرش ہمارے ہر قدم سے گندا ہوتا، توماتا جی چُپ چاپ ہمیں دیکھتی رہتیں۔ 

آپ اُن کی ساسو ماں تھیں اور اِس سے بھی بڑھ کریہ کہ خُود بڑی ٹھاکرائن تھیں۔ بڑے ناناجی دکانیں، مکان، باغ، بغیچے اپنے دیہانت سے پہلے سب آپ کے نام لگا گئے تھے۔ بھلا کس کی مجال تھی کہ آپ سے کچھ کہتا۔ ماتاجی آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں، اِس لیے شامت رگھودا کی آتی، جنہیں وہ چیخ چیخ کر فرش صاف کرنے کا حُکم دیتیں۔ (جاری ہے)