دنیا کی تاریخ میں ایسے بے شمار افراد آئے جنہوں نے اپنی عقل، طاقت، فلسفے یا سیاست کے ذریعے انسانوں پر اثر ڈالا۔ لیکن کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں جس نے انسانیت کے ہر پہلو کو روشن کیا ہو، ہر اندھیرے کو روشن کیا ہو اور ہر دکھ سہنے والے کے دکھوں کا مداوا کیا ہو بے سہاروں کو سہارا دیا ہو۔ایسی بس ایک ذات مبارکہ ہے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجی گئی۔وہ ذات پاک ہے سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ہے۔
یہ آیت نہ صرف آپؐ کی شان بیان کرتی ہے بلکہ آپؐ کی بعثت کا مقصد بھی واضح کرتی ہے۔ آپؐ صرف عرب یا قریش کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت، تمام نسلوں، اقوام، مذاہب، اور آنے والی نسلوں کے لیے رحمت ہیں۔حضرت محمدﷺ کی حیات پاک کا ہر پہلو رحمت اور شفقت سے بھرا ہوا ہے۔ یتیمی کی کٹھنائیوں سے گزرے، لیکن کبھی کسی یتیم کو حقیر نہ جانا۔ بچپن میں ہی آپؐ نے دوسروں کا دکھ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کی حیات طیبہ میں آپؐ نے ہمیشہ یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کو اپنے قریب رکھا۔رسول اللّٰہ کی سب سے بڑی پہچان آپؐ کا اعلیٰ اخلاق تھا۔ دشمن بھی گواہی دیتے کہ آپؐ صادق اور امین ہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ سے پہلی ملاقات پر فرمایا تھا: "آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، یتیموں اور غریبوں کی مدد کرتے ہیں، بے سہارا کو سہارا دیتے ہیں اور مصیبت زدہ کی خبر گیری کرتے ہیں۔’’ یہی وہ رحمت ہے جو ہر دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔جب آپؐ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو قریش نے اذیتیں دیں، پتھر مارے، بائیکاٹ کیا، طائف میں لہولہان کر دیا۔ لیکن آپؐ نے بددعا نہیں دی بلکہ فرمایا: "اے اللّٰہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ مجھے جانتے نہیں۔‘‘یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ کا وجود سراپا رحمت تھا۔رحمت للعالمینؐ نے صرف اپنی ذات تک رحمت کو محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے اصحاب کرامؓ کو بھی یہی درس دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے غلاموں کو آزاد کرایا، حضرت عمر فاروقؓ نے عدل قائم کیا، حضرت عثمانؓ نے سخاوت کے دریا بہائے اور حضرت علیؓ نے علم و شجاعت سے امت کو منور کیا۔ یہ سب اس رحمت کے اثرات تھے جو رسولِ اکرمؐ نے اپنے اصحاب کے دلوں میں راسخ کئے ۔فتح مکہ کا منظر رحمت نبویؐ کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ وہی لوگ جنہوں نے سالہا سال تک ظلم کیے، قتل کی کوشش کی، جلاوطن کیا، آج آپؐ کے سامنے جھکے کھڑے تھے۔ آپؐ کے پاس موقع تھا کہ انتقام لیتے، لیکن آپؐ نے فرمایا: ’آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘یہ وہی جملہ ہے جس نے دشمنوں کو بھی دوست بنا دیا۔رحمت للعالمینؐ کا کردار صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی آپؐ نے عدل و احسان کا رویہ رکھا۔ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ ہو یا یہودی قبائل کے ساتھ معاملات،آپؐ نے ہمیشہ انصاف کیا۔ حتیٰ کہ مدینہ کے یہودی بھی جانتے تھے کہ اگر کوئی فیصلہ محمدؐ کے پاس جائے گا تو وہ عدل پر مبنی ہوگا۔اس معاشرے میں جہاں عورت کو حقیر سمجھا جاتا تھا، زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، رسول اللّٰہ نے عورت کو عزت بخشی۔ آپؐ نے فرمایا: "تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کرے۔" آپؐ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی اور بیٹی کو باعثِ رحمت قرار دیا۔
رسول کریم ﷺ بچوں سے بے پناہ محبت کرتے۔اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو کندھوں پر بٹھا لیتے، نماز کے دوران وہ کمر پر سوار ہو جاتے تو سجدہ طویل کر دیتے۔ یہ تعلیم تھی کہ بچوں کے ساتھ شفقت ہی اصل تربیت ہے۔آپؐ نے غلاموں کے حقوق واضح کیے اور آزادی کی ترغیب دی۔ آپؐ نے فرمایا: "تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، جو کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو پہنو وہی انہیں پہناؤ۔" یہ تعلیم آج کے انسانی حقوق کے چارٹر سے کہیں بڑھ کر ہے۔جہاد اور جنگ کے دوران بھی آپؐ نے رحمت کے اصول اپنائے۔ عورتوں، بچوں، بزرگوں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔ قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا، بلکہ بدر کے قیدیوں کو علم سکھانے کے عوض آزادی دے دی۔رسول اللہؐ کا پیغام صرف عرب کے ریگستانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے۔ آج بھی اگر دنیا امن چاہتی ہے تو اسے آپؐ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ مساوات، عدل، رحم اور اخوت،یہی وہ اصول ہیں جو عالمی امن کی ضمانت ہیں۔آج جب دنیا ظلم، جنگ، انتہا پسندی اور لالچ کا شکار ہے، ہمیں پھر سے رحمت للعالمینؐ کی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہوگا۔ آپؐ نے بتایا کہ سب انسان برابر ہیں، کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ آج اگر مسلمان بھی ان تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا میں امن اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔ربیع الاول کایہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میلاد کی محفلیں بھی سجائیں اور آپؐ کی سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اگر ہر مسلمان اپنے قول و فعل میں پختہ بن جائے تو امت کا ہر فرد دوسروں کیلئے سہارا ہو جائیگا۔رحمت للعالمین ؐکی حیاتِ طیبہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کے ہر پہلو میں رحمت، شفقت اور انصاف کو اپنایا جائے۔ آپؐ کی ذات ایک ایسا آفتاب ہے جو صدیوں سے روشن ہے اور قیامت تک روشنی بکھیرتا رہے گا۔ آج ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم آپؐ کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں، آپؐ کے اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور واقعی دنیا کے لیے رحم اور شفقت بن جائیں۔