چاروں طرف پانی ہی پانی ہے ڈوبنے والوں کیلئے گریہ ہے جو بچ گئے ہیں وہ پکار رہے ہیں ’پانی،پانی‘ جس مال مویشی کے بغیر نہ وہ پہلے جی سکتے تھے نہ آئندہ کی امید ہے، وہ بھی جو آوازیں نکال رہے ہیں اسکا ترجمہ کرنیوالا ہو یا نہ ہو صاف لگتا ہے کہ ’’چارہ ،چارہ ،بھوسہ بھوسہ‘‘ کہہ رہے ہیں ۔فضا میں ہیلی کوپٹر اڑ رہے ہیں جو مدد مانگنے والوں کی آس امید بڑھا بھی رہے ہیں،گھٹا بھی رہے ہیں، کچھ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں دیکھ لیا گیا ہے، انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ سیت پور کی تیسری اور چوتھی کھجور پر وہ اور انکا پورا جھگّا ہے، بے شک انکے اسکول، کتابیں، ماسٹر اور ماسٹرنیاں ڈوب گئے ہیں اس کیساتھ ہی عرضیاں لکھنے کے سارے اسلوب اور القاب و آداب بھی مگر کہیں کہیں سے انہیں جمشید رضوانی کی آواز آتی ہے کہ خطرہ کم ہو رہا ہے، ٹل نہیں رہا، ادھر سے ایک نیک پروین حمیدہ بانو کہہ رہی ہے گنہگارو! سچے دل سے توبہ کرو، گلے میں چاروں قل کا نقش ڈال لو اوروعدہ کرو کہ جیتے رہے تو ووٹ صرف جماعت اسلامی کو دینا ہے، دس بیس کیا سیکڑوں ہوں گے جو سچل،اور شاہ لطیف کے بیت پڑھ رہے ہیں بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور خواجہ فریدکے کچھ مصرعے اور چاہتے ہیں کہ ان کا چینی ترجمہ بلاول بھٹو کو اورانگریزی ترجمہ پنجاب کی افسر شاہی کو پہنچ جائے۔ قیامت کے اس عالم میں بھی مجھے ملتان کے اسد ملتانی(1902-1959ء) یاد آرہے ہیں ،جنکے والد نے انہیں ملتان کی بجائے لاہور بھیجا کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کریں۔ انگریز کے زمانے میں نائب تحصیلدار ہوئے، پھر دلی کے سینٹرل سیکرٹریٹ میں آ گئےجو گرمیوں میں شملہ منتقل ہو جاتا تھا، اسد ملتانی شعر کہتے تھے صحافت سے بھی وابستہ تھے انکے اخبار الشمس کی پیشانی پر ایک خاتون محترم کا نام بطور مدیرہ بھی آتا تھا جس نے ہمارے شاعر کو گھائل کیا کہ وہ بے بس ہو کر اس سے شادی کر بیٹھے پھر علیحدگی ہوئی تو اس نے ان پر مقدمے کئےجس سے اقبال کے رنگ میں شعر کہنے والے کے ہاں دردمندی کی ایک لہر آئی بہر طور ہمارے اسد ملتانی فارن اینڈ پولیٹکل ڈیپارٹمنٹ میں آ گئے جو براہ راست وائسرائے کے ماتحت تھا، نور احمد فریدی نے لکھا ہے’’ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کچھ خفیہ فائلوں کو جلانے کا حکم دیا مگر جو جہاز اسد ملتانی کے اہل و عیال اور سامان کو پاکستان بھیجنے کیلئے ملا اسی میں یہ فائلیں بھی احتیاط سے بھیج دی گئیں جنہیں دیکھ کے محمد علی جناح نے کہا اسد خان! تم نے پاکستان کو کئی آزمائشوں سے بچا لیا‘‘۔ سو پاکستان بننے کے بعد وہ وزارت خارجہ میں آ گئے اور ڈپٹی سیکرٹری ہو گئے۔ اسد ملتانی نے پاکستان کے بانی کو 7جون 1947ء کو خط لکھا کہ ملتان کی ایک تاریخی اور تہذیبی حیثیت ہے بہتر ہوگا کہ اسے پاکستان کا دارالخلافہ بنایا جائے۔ (تب اسد ملتانی بھی خیال کرتے تھے پاکستان کا صدر مقام دارالحکومت نہیں دارالخلافہ ہو گا) اس سے پہلے وہ اردو اور فارسی اشعار میں یہ مقدمہ پیش کر چکے تھے:
کیوں نہ شاداب ہو کہ ملتا ہے…پانچ دریائوں کا اسے پانی
مرکزِ مستقل تو ملتاں ہے… پھرحکومت یہاں پہ ہے آنی
کوئی چودہ برس ہوئے میں نے… کہہ دیا تھا بہ کشف روحانی
گر کنوں تشکیل پاکستان شود… مرکز آں مملکت ملتاں شود (اسد ملتانی، مولاناعبدالباقی بزم ثقافت)
٭٭٭٭
سیلاب کی تباہ کاریاں سب کو دکھائی دے رہی ہیں ،کشتیوں کے الٹنے کے واقعات بھی کم الم ناک نہیں تاہم پولیس اور فوج کے اہلکار بھی اپنی جان کی پروا کئے بغیر ستم رسیدہ افراد کے دکھ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ شکوہ بھی ہو رہا ہے کہ چور اچکوں کی کشتیاں اور اس کے چپو زیادہ مضبوط ہیں پھر بھی آج کے ایک انگریزی اخبار میں ہے کہ ایک کم سن بچے ریحان کے والدین اور بہن بھائی کشتی الٹنے سے پانی میں ایسے ڈوبے کہ باہر نہ نکل سکے۔اب اس کم سن بچے کے چچا نے بیس لاکھ روپے کے امدادی چیک لینے کے لئے کچھ حلف نامے دیئے مگر اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے ریحان کے نام پر بیس لاکھ روپے ایک بینک میں فکسڈ ڈیپازٹ میں رکھوائے ہیں کہ ماہانہ منافع کی رقم سے بچہ تعلیم بھی پائے اوراس کی کفالت بھی ہو۔ یہ مثال قابل تقلید ہے ہمارے بینکوں کی منافع خوری کے قصے مشہور ہیں بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کے ساتھ اس علاقے کے معززین کو بھی کفالتی کمیٹیوں میںشامل ہونا چاہئے پھر کہیں جا کر ہمارے ارد گرد بیٹھے اداس لوگوں کی یاس انگیز گفتگو کا اثر زائل ہو گا۔
٭٭٭٭
ہمارے ملک میں پھر مکتوب نگاری کا چرچا ہے کچھ عزت مآبوں نے بھی خط لکھنے شروع کئے ہیں مگر مجھے نجانے چوہتر برس کی کینسر کی مریض ڈاکٹر یاسمین راشد کے اس خط نے ہلا کے رکھ دیا ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم وفات پر لکھا گیا ہے کہ آپ قانون دان ہیں میں اپنی جیسی اسیر عورتوں کی طرف سے آپ سے مداخلت کی توقع رکھتی ہوں۔۔ ادھر میں توغریب مدرس ہوں مجھے اندرونی یا بیرونی حالات کا اتنا پتہ ہے جو اخبار پڑھنے والے کو معلوم ہوتے ہیں پھر میری اوقات کیا ہے کہ میں خان اعظم کو خط لکھ سکوں کہ ایسے وقت میں جب پانی ہمارا محاصرہ کر رہا ہے ،ماہرین موسمیات کہہ رہے ہیں کہ زیادہ بڑی تباہی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے آپ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں سے اپنے اراکین کو مستعفی کروا رہے ہیں کچھ مہربانی کریں تو اسمعیل میرٹھی کی نظم آپ کو سنا دوں
ع ۔گھنگھور گھٹا تلی کھڑی ہے
یا حالی کی مناجات کے کچھ بند آپ کی خدمت میں پیش کروں یا پھر حارث خلیق کایہ شعر آپ کی نذر کروں۔
ماضی کی حکایات ہیں فردا کی امیدیں
کھولے کوئی امروز کاامکاں سرِ بازار