وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آزادی کی جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے، اس میں فرق رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
سارک وزارئے داخلہ کانفرنس میں بھارت اور افغانستان نے پاکستان کے خلاف ایکا کر لیا، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تحریری بیان ایک طرف رکھا اور کراراجواب دیا، بولے کہ جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے،معصوم بچوں اور شہریوں پر تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
سارک وزارئے داخلہ کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ اور افغانستان کے نمائندے نے پاکستان پر الزامات عائد کیے تو ڈرامائی صورت حال پیدا ہو گئی، عموما ًپالیسی بیان دینے کی ذمہ داری میزبان ملک کے سیکریٹری کی ہوتی ہے،مگرغیر متوقع طور پر پالیسی بیان دیا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے، تحریری بیان ایک طرف رکھا اورنئی صورتحال کے مطابق پالیسی بیان زبانی دیا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے، آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دبانا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، نہتے شہریوں پر طاقت کا بہیمانہ استعمال بھی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، معصوم بچوں اور شہریوں پر تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ 6 دہائیوں سے جاری الزامات کی روش نے کسی کو کچھ فائدہ نہیں دیا، اچھے یا برے طالبان کے الزامات لگانے کی روش سے الگ ہونے کی ضرورت ہے، وقت آ گیا ہے کہ الزامات کی بجائے با مقصد مذاکرات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پٹھان کوٹ، کابل، ممبئی اور ڈھاکا دھماکوں کی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے، آرمی پبلک اسکول، چارسدہ دھماکے، اقبال پارک لاہور کے واقعات بھی دنیا کے سامنے ہیں، پاکستان بھی سرحدپار دہشت گردی اور اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کا شکارہے، سمجھوتا ایکسپریس جیسے حملوں میں ملوث مذہبی گروہوں کو تحفظ دینے کا عمل باعث تشویش ہے، مستقبل میں ایسے حملوں سے بچنے کے لیے مجرموں کو جلد ازجلد سزا دینا ضروری ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان باوقارانداز میں پرامن مذاکراتی عمل کا حصہ بننےپرتیار ہے، دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، ہمارا خطہ بھی اس ناسور سے متاثر ہوا، سارک ممالک کو دہشت گردی خطے سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں اور تعاون بڑھانا ہو گا۔