• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر میں حماس قیادت پر اسرائیلی حملے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ کردیا ہے، حملے سے پیدا ہونیوالی صورتحال اور اسرائیلی جارحیت کیخلاف تمام عرب اور اسلامی ممالک کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ حملے کے فوراً بعد قطر میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس طلب کیا گیا جس میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت سعودی عرب، ترکیہ، ایران، مصر، اردن اور انڈونیشیا کے سربراہان مملکت نے شرکت کی مگر اجلاس میں مذمتی بیانات سے زیادہ کوئی سخت موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں سب سے موثر تقریر وزیراعظم شہباز شریف کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر کٹہرے میں لانا ہوگا، اگر اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات نہ کئے گئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ منگل کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں حماس رہنما خلیل الحیہ کے بیٹے سمیت 6افراد شہید ہوئے تھے۔ اسرائیلی حملے کے فوراً بعد وزیراعظم شہباز شریف نے قطر کا دورہ کیا اور اسرائیلی حملے کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان، قطر کی خود مختاری کے تحفظ کیلئے ہر ممکن تعاون کریگا اور اس نازک گھڑی میں ہم قطر کیساتھ کھڑے ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے قطر پر حملے کو ڈھٹائی کے ساتھ جائز قرار دیااور کہا کہ اگر دیگر ممالک نے حماس یا دیگر مذہبی گروپوں کو پناہ دی تو اسرائیل اُن ممالک کے اندر گھس کر کارروائی کریگا۔ نیتن یاہو کے اس بیان سے یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل کا اگلا نشانہ ترکیہ ہوسکتا ہے کیونکہ اسرائیل ترک قیادت کو انتباہ کرچکا ہے کہ وہ حماس رہنمائوں کو فوری ملک بدر کرے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے قطر پر حملے کا موازنہ اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن سے کیا اور اعلان کیا کہ اسرائیل مستقبل میں بھی دوسرے ممالک میں اسی نوعیت کے حملے جاری رکھے گا۔ یہ بیان نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ عالمی سفارتی اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے جس سے خطے میں مزید عدم استحکام کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی حملے سے متعلق انہیں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی لیکن ٹرمپ کا یہ دعویٰ بے بنیاد نظر آتا ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ قطر پر اسرائیلی حملے کی امریکہ کو پیشگی اطلاع تھی بلکہ اسرائیل کو امریکی آشیرباد حاصل تھی۔ قطر، امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر میں ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے قطر، حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کیلئے ثالثی کا کردار ادا کررہا تھا لیکن حماس کی مذاکراتی ٹیم پر اسرائیلی حملے سے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خلیج فارس میں قطر کا ایک اہم جغرافیائی مقام ہے اور یہ ملک عالمی توانائی کی سپلائی لائنز کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ قطر دنیا میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور اسرائیلی حملے کے بعد نہ صرف دنیا کو توانائی کی فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے بلکہ عالمی مارکیٹ میں گیس اور تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف خطے کے دیگر خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات،عمان اور بحرین جو اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں، انہیں شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے علاقائی نتائج سنگین ہوسکتے ہیں، تمام خلیجی ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ اگلی باری ان کی ہوسکتی ہے اور اسلامی ممالک کے صرف مذمتی بیانات اسرائیلی میزائلوں کو نہیں روک سکتے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تجویز وقت کی اہم ضرورت ہے۔رواں سال مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب خلیجی ممالک کے دورے پر آئے تو قطر نے امریکہ میں 1.2 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی اور 400 ملین ڈالرز کا بوئنگ طیارہ بطور تحفہ ٹرمپ کو پیش کیا جبکہ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک نے بھی امریکہ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ ٹرمپ کی خوشنودی کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ان ممالک کی سیکورٹی کا ضامن بنے لیکن قطر پر اسرائیلی حملے نے خلیجی ممالک کو تشویش میں مبتلا اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اب انہیں اپنے تحفظ کیلئے پاکستان اور ترکیہ کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ قطر کا دفاعی بجٹ 15 ارب ڈالر سالانہ ہے اور اسکے پاس رافیل اور ایف 16 جنگی طیاروں سمیت جدید دفاعی ساز و سامان موجود ہے لیکن اسرائیلی فضائی حملے نے قطر کی سیکورٹی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حملے کی پیشگی اطلاع تک قطر کو نہ مل سکی اور نہ ہی امریکہ، قطر کی کوئی مدد کرسکا۔ ایسی صورتحال میں قطر اور خطے کے دیگر خلیجی ممالک میں یہ سوچ پروان چڑھی ہے کہ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی سیکورٹی ضمانتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگرچہ قطر کے پاس جدید جنگی طیارے ہیں مگر اسرائیلی حملے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جنگی طیاروں کی موجودگی سے زیادہ ان طیاروں کو اڑانے والے پائلٹس اہمیت رکھتے ہیں۔ قطر سے دفاعی بجٹ کم ہونے کے باوجود پاکستان نے کبھی اپنے دفاع کیلئے کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں کیا اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارت جیسے بڑے دشمن کو انتہائی موثر انداز میں جواب دیتے ہوئے جدید بھارتی رافیل طیاروں کو ملک میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کرکے شرمناک شکست دی جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان اپنے دفاع کیلئے کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں کرتا اور پاکستان ایئر فورس کے قومی جذبے سے سرشار باصلاحیت پائلٹس جدید رافیل طیاروں کو گرانے کی بھرپور مہارت رکھتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی حملے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ملکی سلامتی کو کبھی آئوٹ سورس اور دفاع کا انحصار کسی دوسرے ملک یا بیرونی طاقت پر نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین