• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاشوں کو ’ممی‘ بنا کر صدیوں محفوظ رکھنے کی روایت کتنی پرانی ہے؟ تحقیق میں نیا انکشاف

فوٹو بشکریہ اے ایف پی
فوٹو بشکریہ اے ایف پی

مصر کے قدیم معاشرے کے لوگوں کی لاشوں کو پٹی سے لپیٹ کر ’ممی‘ بنا کر رکھنے کی روایت تو دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن یہ بات شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ قدیم زمانے میں لاشوں کو دھوئیں سے خشک کرکے بھی محفوظ کیا جاتا تھا۔

آج سے ہزاروں سال پہلے چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ قدیم معاشروں میں لوگ لاشوں کو دھوئیں سے خشک کرکے’ممی‘ بنا کر رکھتے تھے۔

اسی طرح جنوبی امریکا کے ملک چلی سے بھی لاشوں کو ’ممی‘ بنانے کی  قدیم مثالیں ملتی ہیں۔

جنوبی امریکا میں اٹاکاما ساحلی پٹی کی خشک ہوا لاشوں کو قدرتی طور پر ’ممی‘ میں تبدیل کر سکتی ہے۔

لیکن چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے محققین کے ذریعے حاصل کی گئی لاشیں زیادہ تر مرطوب علاقوں سے آئیں اس لیے اُنہیں ابتدائی طور پر چین، ویتنام، فلپائن، لاؤس، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں تدفین کے مقامات پر پائے جانے والے انسانی ڈھانچوں میں دلچسپی تھی۔

محققین کو ان ممالک سے ملنے والی باقیات پر کچھ جگہوں پر جلنے کے نشانات نظر آئے۔

ان باقیات کا بغور جائزہ لینے کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ ممکنہ طور پر یہ لاشوں کو دھوئیں سے خشک کرکے ’ممی‘ کی صورت میں محفوظ کرنے کے طریقے کا نتیجہ ہے جو کہ انڈونیشیا کے کچھ حصوں میں مشہور ہے۔

محققین نے جاپان سے اکٹھے کیے گئے ہڈیوں کے نمونوں کی ساخت کا بھی تجزیہ کیا اور ان ہڈیوں کے نمونوں سے بھی دھوئیں سے خشک کیے جانے کے ثبوت ملے۔

محققین نے یہ بھی بتایا کہ ان ہڈیوں کے نمونوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کو جلانے کی کوشش بالکل نہیں کی گئی بلکہ ان کو محفوظ رکھنا مقصد تھا۔

محققین کے مطابق ان نمونوں میں سے کچھ تقریباََ 10 ہزار سال سے زیادہ پرانے ہیں یعنی ان معاشروں میں لاشوں کو ’ممی‘ بنا کر صدیوں تک محفوظ رکھنے کی روایت مصری روایت سے بھی زیادہ پرانی ہے۔

دلچسپ و عجیب سے مزید