• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُمت مسلمہ کو ایک اور اُفتاد کا سامنا ہے، کافروں نے ایک اور گھناؤنی سازش کے تحت مسلمان بچیوں کو بانجھ بنانے کیلئے ویکسین لگانا شروع کردی ہے۔ پہلے جو کام پولیو کے قطروں اور کرونا کی ویکسین سے لیا جاتا تھا اب اس مذموم ایجنڈے کی تکمیل کینسر کی ویکسین سے کی جارہی ہے۔ فلسطین میں ہزاروں بے گناہ بچے مارے گئے اگر مغربی ممالک کو انکی کوئی پروا نہیں تو ہماری بیٹیوں کی فکر کیو ں کھائے جارہی ہے؟آخر یہ ہمیں بیماریوں سے بچانے کیلئے مفت دوائیں کیوں فراہم کرتے ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آج کل اس طرح کے سوالات کی آڑ میں ثواب کی نیت سے شکوک و شبہات پھیلائے جارہے ہیں۔فاتح جلال آباد مرحوم لیفٹیننٹ جنرل (ر)حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل نے تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک پرانی ویڈیو بھی یہ لکھ کر شیئرکردی کہ اسکولوں میں بچیوں کو زبردستی ویکسین لگائے جانے پر کچھ طالبات کی طبیعت بگڑ گئی۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان اندیشہ ہائے دور دراز کی حقیقت معلوم کرنیکی کوشش کی جائے۔ایک وائرس جسے Human Papilomavirus (HPVکہا جاتا ہے یہ خواتین میں Cervical Cancerکا باعث بنتا ہے۔یہ خواتین میں پائے جانیوالے سرطان کی اقسام میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اگر اس موذی مرض کے باعث اموات کی بات کریں تو سروائیکل کینسر ہر دو منٹ میں ایک خاتون کو مار ڈالتا ہے یعنی جتنی دیر میں آپ یہ کالم پڑھیں گے سروائیکل کینسر کے باعث مرنے والوں میں ایک اور خاتون کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو یہاں 73ملین خواتین میں سے کم ازکم 20ملین خواتین اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں۔ہر روز صرف پاکستان میں 8خواتین سروائیکل کینسر کے باعث زندگی ہار جاتی ہیں۔شروع میں کینسر لاعلاج مرض تھا مگر انسان برسہا برس کی محنت کے بعد اسے شکست دینے میں کامیاب ہوگیا تو ویکسین تیار کرنے کے منصوبے پر کام ہونے لگا۔آسٹریلیا وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنی بچیوں کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کیلئےHPVویکسین لگانا شروع کی اور اب 150ممالک اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔پاکستان بھی کچھ عرصہ قبل اس کارخیر میں شامل ہوا تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 49000ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی تاکہ 9سے14سال کی 13ملین پاکستانی بچیوں کو پہلے مرحلے میں HPVویکسین لگا کر محفوظ کیا جاسکے۔15ستمبر 2025ء سے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف امیونائزیشن FDIکے زیر انتظام HPVویکسین لگانے کی مہم شروع ہوئی تو لاعلمی اور جہالت کے باعث غیر ملکی سازش کا پراپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ہم سلسلہ وار تمام اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں مگر پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی بچی کواسکے والدین کی تحریری اجازت کے بغیر ویکسین نہیں لگائی جارہی۔میری بیٹی اسکول سے جو فارم لیکر آئی تھی،وہ ساتھ لیجانا بھول گئی تو ٹیلیفون پر بات کروائے جانے کے باوجود متعلقہ اسٹاف نے ویکسین لگانے سے انکار کردیا اور کہا کہ والدین کی تحریری اجازت کے بغیر ویکسین نہیں لگائی جاسکتی۔ عبداللہ گل سمیت بعض شخصیات نے طالبات کی جو ویڈیو شیئر کی وہ حقائق کے منافی ہے۔ یہ گزشتہ برس تب کی ویڈیو ہے جب آزاد کشمیر میں احتجاج کے باعث پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا تھا۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ HPV جنسی تعلقات کے باعث پھیلتا ہے تو ہماری بچیوں کو یہ ویکسین کیوں لگائی جارہی ہے؟ طبی ماہرین کے مطابق جنسی تعلقات اسکے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ضرور ہیں مگر یہ مرض اسکے بغیر بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ حاملہ خواتین سے بچوں میں آسکتا ہے اسکے علاوہ میل ملاپ کے ذریعے بھی HPVہوسکتا ہے۔پاکستان میں 20ملین خواتین اس خوفناک مرض کا شکار ہیں، کیا وہ سب بے راہ روی کا شکار ہیں؟یہ بیچاری بدکار نہیں بد نصیب ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچیاں محفوظ رہیں تو انہیں ویکسین ضرور لگوائیں۔ دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ دراصل اس ویکسین کے ذریعے کفار ہماری بچیوں کو بانجھ بناناچاہتے ہیں۔ انکی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی افزائش نسل کو روکا جائے۔ اس سے پہلے پولیو کے قطروں سے متعلق بھی یہی کہا جاتا تھا۔میں سوچتا ہوں 1990ء کے اوائل سے پولیو کے قطرے پلائے جارہے ہیں،جن بچوں نے یہ قطرے پیئے،آج انکے ہاں بچوں کی قطار لگی ہوئی ہے تو پھر لوگ ان باتوں پر کان کیوں دھرتے ہیں؟چلیں HPVویکسین کی بات کرلیتے ہیں۔آسٹریلیا نے 2007ء میں یہ ویکسین لگانا شروع کی اور آج وہاں Cervical Cancerکا مرض ختم ہونے کو ہے۔14سال کی جن بچیوں نے 2007ء میں یہ ویکسین لگوائی تھی،آج وہ 32سال کی ہوچکی ہیں،ان کا ڈیٹا نکلواکردیکھ لیں،اگر وہ بانجھ نہیں ہوئیں اور بچوں کو جنم دے چکی ہیں تو پھر ہمارے ہاں اس طرح کی بے بنیاد باتیں کیوں کی جارہی ہیں؟جب یہ سب دلائل رد ہو جاتے ہیں تو حالت اِنکار میں رہنے والے اپنے موقف پراصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ انگریز ہمارے سگے ہیں کیا؟ آخر انہیں ہماری بچیوں کی اتنی فکر کیوں ہے؟یہ ہمیں مفت ویکسین کیوں دے رہے ہیں؟آپ کو کرونا کی وبا تو یاد ہوگئی،تب بھی اسی قسم کی باتیں کی گئی تھیں۔جنہوں نے کرونا ویکیسن ایجاد کی،انہوں نے پیٹنٹ رجسٹر کروانے یعنی اس کے جملہ حقوق اپنے پاس رکھ کر پیسے کمانے کے بجائے سب کو یہ ویکسین بنانے کی اجازت دیدی،کیوں؟ اسلئے کہ اگر کسی ایک ملک میں بھی کرونا وائرس باقی رہ جاتا تو پوری دنیا دوبارہ اسکی لپیٹ میں آسکتی تھی۔دنیا کو ہماری نہیں اپنی فکر ہے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا گلوبل ویلج ہے،اگر کوئی مرض، کسی قسم کا وائرس،کسی ایک خطے، کسی ایک ملک میں باقی ہے تو دنیا محفوظ نہیں ہے اسلئے وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے پولیو کے قطرے اور HPVویکسین فراہم کرتے ہیں،غیر ترقی یافتہ ممالک کو اپنے ساتھ ان مہمات میں شامل کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کافر وں کے ہاں انسانیت کا جذبہ بہرحال بہت زیادہ ہے۔

تازہ ترین