• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب اسلامک ایمرجنسی سمٹ منعقد ہوئی جس میں پچاس کے قریب مسلم ممالک کے سربراہان یا نمائندوں نے شرکت کی، یہاں کی گئی تقاریر میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسرائیل نے تمام ریڈلائنز عبور کرلی ہیں یواین چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ قطر نے ثالث کے طور پر خطے میں امن کیلئے مخلصانہ کوششیں کیں لیکن اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس قیادت کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی جانب سے خطے کے ممالک کی خودمختاری پر حملہ قابلِ مذمت ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے اس نے جرائم کی تمام حدود پارکرلی ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ اقوامِ متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت معطل کروا دی جائے۔ پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ مسلم ممالک کی مشترکہ ٹاسک فورس بنائی جائے اور دوریاستی حل پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی اسلامی ممالک متحد نہ ہوئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرئیگی۔ ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ اس عرب اسلامک سمٹ سے عرب لیگ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرلز کے علاوہ ایران، عراق، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے صدور نے بھی خطاب کیا۔ البتہ قطر کی ہمسائیگی میں واقعہ طاقتور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت بحرین، جارڈن اور شام نے انتہائی محتاط طرزِ عمل اپناتے ہوئے بیان بازی سے احترازکیا۔ ‎عرب اسلامک سمٹ کے اختتام پر مشترکہ اعلامیے میں دوحہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم ہر ممکنہ جوابی اقدام کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ایک غیرجانبدار ثالثی مرکز کو نشانہ بناناقیام امن کی کاوشوں کو ناکام بنانے کے مترادف ہے۔ قطر کے دانشمندانہ کردار کی تحسین کرتے ہوئے مصر اور امریکا کی جاری ثالثی مساعی کو اہم قراردیا گیا۔ اعلامیے میں اسرائیلی دعووں اور توجیہات کو مسترد کرتے ہوئے محاصرے اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرم قراردیا گیا۔ کسی بھی ممکنہ اسرائیلی فیصلے کے تحت فلسطینی علاقوں کے انضمام یا جبری ہجرت کی مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قطر، غزہ، ویسٹ بنک اور دیگر خطوں پر جاری مسلسل جارحیت کو روکاجائے۔ یواین جنرل اسمبلی میں حالیہ ”اعلانِ نیویارک“اور دوریاستی حل کی توثیق کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا گیا کہ مڈل ایسٹ کو تباہ کن ہتھیاروں سے پاک خطہ بنایاجائے۔‎درویش یہاں اپنے اہلِ دانش کی خدمت میں کچھ اہم پوائنٹس اُجاگر کرنے کا خواستگار ہے دوحہ کی عرب اسلامک سمٹ میں جتنی بھی تقاریر تھیں آپ انہیں بغور پڑھیے اسکے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے اہم نکات کابھی جائزہ لیجیے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ یہ محض بیان بازیاں ہی تھیں۔

اس کے بالمقابل شاید خود نشانہ بننے والا میزبان ملک بھی اس حد تک جانا پسند نہیں کرتا۔ اگرچہ ہمارے پاکستانی حکمران اسے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اب اگر ہمارے میڈیا کی سرخیاں ملاحظہ کریں خواہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل میڈیا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انقلاب آ گیا ہے اور کفر کے خلاف اسلامی دنیا اکٹھی ہوگئی ہے لہٰذا اب اسرائیل کی خیر نہیں بلکہ ہمارا عوامی اسلوب تو یہ ہوتا ہے کہ اے مسلمانو! اکٹھے ہوکر اسرائیل کا ناپاک وجود صفحہء ہستی سے مٹادو ،پاکستان ہی نہیں ایران سے بھی اس نوع کی آوازیں نچلی نہیں اقتدار کی اعلیٰ ترین سطح سے بارہا اٹھتی رہی ہیں البتہ ایران اسرائیل جنگ کے بعد اب اس میں تھوڑا ٹھہراؤ آیا ہے۔ ‎رہ گئیں غزہ کے عرب عوم پر اسرائیلی زیادتیاں، ان پر تو کوئی دو آراء ہیں ہی نہیں، اس پر مسلم ہی نہیں غیر مسلم اقوام کی جانب سے بھی پوری دنیا میں سخت احتجاج کیاجارہا ہے حتیٰ کہ ویٹیکن سٹی سے بھی دردانگیز بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں، یورپین ممالک اور ان کے عوام بھی کھل کر بول رہے ہیں۔ عرب اسلامک سمٹ کے بعد ہمارے سادہ لوح احباب اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی بہت بڑا اسلامی انقلاب آجائےگا تو دست بستہ عرض ہے کہ وہ اگر حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ غزہ کے مظلوم عوام چکی کے جن دوپاٹوں میں پہلے سے پستے چلے آرہے تھے پچاس مسلم ممالک کی اس سمٹ کے بعد بھی وہ اسی طرح پس رہے ہیں،اسی طرح دردناک اموات کاشکار ہورہے ہیں۔ ‎درویش کو کہاجاتا ہے کہ زیادہ سچائی مت لکھو لیکن کیا اس سے تلخ زمینی حقائق ختم ہوسکیں گے؟

اگر ہماری شعلہ بیانیوں سے اسرائیل ختم ہوسکتا تو شاید پیدا ہونے سے قبل ہی فنا ہوچکا ہوتا۔ ‎دوریش کی نظروں میں سعودی عرب سے زیادہ اسلامی ملک تو دنیا میں کوئی نہیں جو اسلام کامنبع اور طلوع اسلام یا اس کے ظہور کا مرکز ہے ناچیز ڈھونڈھ رہا تھا کہ اس عرب اسلامک سمٹ میں بالغ نظرو باشعور سعودی قیادت نے کیا فرمایا ہے؟ اور پھر ہاشمی سلطنت کے وارث، خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ ایکسیلینسی شاہ عبداللہ دوئم نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟ اہلِ نظر کی خدمت میں ایک اور دلچسپ نکتہ قابلِ توجہ ہے ماقبل جب بھی اس نوع کی اُفتادپڑتی تھی جیسے کہ 69ء میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کا مبینہ سانحہ پیش آیا تو او آئی سی کی تنظیم وجود میں آئی اور پھر تب سےمسلم امہ کی ایک طرح سے نمائندہ تنظیم او آئی سی کو ہی قراردیا جاتا رہا ،اب وہ کیا وجوہ ہیں جن کے کارن ایک عرصے سے او آئی سی کسی حد تک پس منظر میں جاتی دکھائی دےرہی ہے؟ اب اس کی جگہ عرب اسلامک سمٹ کی اصطلاح کیوں استعمال ہو رہی ہے؟جی چاہتا ہے اس کی جینوئن وجوہ پر کسی وقت جامع آرٹیکل تحریر کیاجائے اور عرب لیگ کے بالمقابل او آئی سی کا تقابلی جائزہ پیش کیاجائے۔

تازہ ترین