پچھلے دنوں اسلام آباد سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ اتوار کے روز 12بجے ایئرپورٹ پر پہنچا، ابتدائی مراحل سے فارغ ہو کر ویٹنگ لاؤنج کا رخ کیا تو شیشوں کے اُس پار رن وے کی جانب نظر پڑی۔ خالی ہینگر ایک قطار میں نظر آرہے تھے، جہاز مگر موجود نہ تھے۔ عقب میں کہیں اِکا دُکا نِجی فضائی کمپنیوں کے جہاز البتہ نظر آئے۔ یہ ملک کے دارالحکومت کے ایئرپورٹ کا عالم تھا!جہاں دنیا بھر میں ہوا بازی کی صنعت دن بدن فروغ پا رہی ہے، وطنِ عزیز میں قصۂ پارینہ بن چکی۔ مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا۔ وہ دن پی آئی اے کے عروج کے دن تھے۔ اس کا شمار دنیا کی بہترین اور انتہائی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ اور نہیں تو کم سے کم ایشیا میں سب سے پہلے اپنے بیڑے میں جیٹ طیارہ شامل کرنے کا اعزاز بھی اسے ہی حاصل ہوا۔ میری ان آنکھوں نے پی آئی اے کا وہ اشتہار دیکھ رکھا ہے کہ جس میں فخریہ انداز میں دکھایا گیا تھا کہ پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں ہر طرح کے جدید جہاز شامل تھے۔ میں نے وہ اشتہار بھی دیکھ رکھا ہے کہ جب پی آئی اے نے اعلان کیا تھا کہ اوسطاً ہر چھ منٹ بعد دنیا کے کسی نہ کسی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا کوئی طیارہ اتر رہا ہے یا وہاں سے اڑان بھر رہا ہے۔ اسّی کے لگ بھگ منازل کو جاتی تھیں ہماری پروازیں۔ مجھے اپنے بچپن کا وہ دن بھی یاد ہے جب بیرونِ ملک ایک شخص نے مجھ سے استفسار کیا تھا کہ میں کہاں سے ہوں اور یہ بتانے پر کہ میں پاکستانی ہوں اس نے مجھ سے پوچھا تھا، وہ ملک جس کی ایئر لائن پی آئی اے ہے۔پی آئی اے گویا ہماری فضائی کمپنی ہی نہیں، سبز ہلالی پرچم اوڑھے، ہماری سفیر بھی تھی۔ وہ بھی کوئی عام سفیر نہیں، دنیا بھر میں ہمارا انتہائی اچھا تاثر قائم کرتی ایک اعلیٰ پائے کی سفیر۔ہماری پیش رو نسلوں کی دن رات کی محنتوں کا ثمر تھا پی آئی اے کا حاصل کردہ یہ مقام!
یار لوگوں کو یہ بھی بتاتا چلوں اپنے عروج کے دنوں میں پی آئی اے دوسرے ملکوں کو ایئر لائن بنانا اور چلانا سکھاتی تھی۔امارات کا آج بہت شہرہ ہے اور اس کا شمار ایوی ایشن کی دنیا کے سب سے بڑے ناموں میں ہوتا ہے۔ اس کا تو آغاز ہی پی آئی اے کے طیارے اور عملہ مستعار لے کر ہوا تھا۔ آج بھی امارات کا فلائٹ کوڈ EK اس امر کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ اس نے 1985ءمیں اپنی پہلی اڑان امارات سے کراچی کیلئے بھری تھی۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے پی آئی اے تباہی کے دہانے پر جا پہنچی۔ سیاسی حکومتوں نے اس میں اس قدر اندھا دھند بھرتیاں کیں کہ جہاز اور عملے کا تناسب تباہ کن حد تک بگڑ گیا۔ یونین بازی نے الگ نقصان پہنچایا۔ طاقت کے دیگر مراکز نے بھی اصلاحِ احوال کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا البتہ سربراہان کی تعیناتی کرواتے رہے۔ متعلقہ حقائق سے پوری طرح آگاہی تو نہیں لیکن سنا ہے کہ اوپن اسکائی پالیسی نے بھی پی آئی اے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
تابوت میں آخری کیل ایک روز سابق وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے ٹھونک دی جنہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اپنے پائلٹوں کےلائسنس مشکوک ہونے کی بات کی تھی۔ دہائیوں میں تعمیر ہونے والی پی آئی اے کی عمارت منہدم ہو گئی۔ ہماری ایئر لائن دوسرے ایئرپورٹوں کے لیے اچھوت قرار پائی۔ اربوں روپے کا رہا سہا بزنس دوسری ایئر لائینوں کو منتقل ہونے سے پی آئی اے معاشی طور پر مکمل تباہ ہو گئی۔ بعدازاں اس الزام میں کوئی سچائی بھی نہ نکلی لیکن اس وقت تک جس قدر نقصان ہو چکا تھا، جگ ہنسائی اور رسوائی ہو چکی تھی، اس کا ازالہ اب ممکن نہ تھا۔کیا اب ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اُن وزیر صاحب کا احتساب کیا جائے؟ اگر اپنے کسی عمل سے ملکی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے والوں کو احتساب کے ادارے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں تو اپنے قول کے ذریعے ایسا کرنے والوں کو کیوں نہیں؟اور پھر عبرت کی مثال بھی تو قائم کرنا مقصود ہے کہ آئندہ کوئی ذمہ دار عہدے پر فائز شخص اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان نہ دے۔
پچھلے دنوں ایک شام سابق وزیر موصوف کو میں نے اسلام آباد کلب میں دیکھا۔ میرے ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے ایک صاحب اپنے نو دس سالہ بچوں کو دکھا رہے تھے کہ یہ ہے وہ شخص جس نے پی آئی اے کو تباہ کر دیا۔ بچے پلٹ کر ان وزیر صاحب کو دیکھنے لگے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ موصوف اس امر سے بے خبر سمجھ رہے تھے کہ چونکہ وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں۔ بے شک باری تعالیٰ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے اس سے محروم کر دیتا ہے۔
گئے دنوں میں اپنے بیڑے میں ہر طرح کا طیارہ رکھنے والی پی آئی اے کے طیارے آج انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کو شمار نہ کریں تو ایک زمانے میں اسّی سے زائد منازل کو جانے والی ہماری ایئرلائن اب بمشکل درجن بھر ممالک کو جاتی ہے۔
ہمارا بچپن پی آئی اے کے رومانس میں گزرا تھا۔ اس کا تباہ ہو جانا ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے کسی کے بچپن کی کوئی عزیز ترین شے کھو گئی ہو، جو اب ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے۔ بے وقعتی کا عالم یہ ہے کہ اب پی آئی اے کو جو بیچنے بھی جاتے ہیں تو کوڑیوں کے دام لگتے ہیں۔ کیسی بلندی، کیسی پستی!