پاکستان میٹرلوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے گلیشیرز میں سے 30فیصد سے زائد برف پہلے ہی پگھل چکی ہے۔ ان گلیشیرز کا پگھلنا ابتدائی طور پر پانی کے بہاؤ میں اضافے اور سیلاب کا باعث بنتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سے دریاؤں کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے جو زراعت اور پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے خطرناک ہے۔ گلیشیرز پگھلنے کی شرح 1980 میں دس فیصد تھی لیکن 2000 میں یہ شرح 20 فیصد اور 2020 میں 30 فیصد تک جا پہنچی۔ _ گلیشیرز کے تیزی سے پگھلنے کی بنیادی وجہ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) ہے جو درجہ حرارت میں اضافہ کر کے گلیشیرز کو اس رفتار سے سکیڑ دیتی ہے کہ وہ دوبارہ اپنی پہلی حالت بحال نہیں کر پاتے۔پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشیرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان گلیشیرز میں سے تقریباً 80 فیصد تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشیرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز (GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
یہ وہ ابتدائی صورتِ حال ہے جس نے خدانخواستہ ایک نئے ماحولیاتی المیے کی بنیاد رکھ دی ہے لیکن اگر ہم اس منظرنامے کو مزید گہرائی میں دیکھیں تو یہ صرف پانی کے بہاؤ کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسی زنجیر ہے جو سماجی، معاشی اور ماحولیاتی سطح پر پاکستان کے مستقبل کو تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کی زمین جسے برصغیر کی زرخیزی اور پانچ دریاؤں کی شادابی پر ناز رہا ہے، اب انہی دریاؤں کے سکڑتے ہوئے بہاؤ سے لرزاں و ترساں ہے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ایک عالمی بحران ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کی برفانی پٹیاں تقریباً دو ارب انسانوں کیلئے پانی کا ذریعہ ہیں۔ بھارت، چین، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش سمیت پورا خطہ اس بحران سے دوچار ہے۔ اگر یہ برفانی ذخائر اسی تیزی سے ختم ہوتے رہے تو خطے میں پانی کی قلت نئے تنازعات کو جنم دے گی۔ پانی کے جھگڑے محض صوبوں یا دیہاتوں کے درمیان نہیں ہوں گے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی بحران کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے کیلئے ڈیموں کی کمی اس بحران کو اور بھی سنگین بنا دیتی ہے۔ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت محض چند ہفتوں کے برابر ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک برسوں کا پانی ذخیرہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی سال گلیشیرز سے پانی کی فراہمی میں کمی ہو تو پورا ملک خدا نخواستہ خشک سالی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
گلیشیرز کا پگھلنا ایک سائنسی حقیقت ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور ثقافتی سانحہ بھی ہے۔ شمالی علاقوں کے لوگ جو صدیوں سے ان برفانی چوٹیوں کے ساتھ اپنی زندگیاں ہم آہنگ کر چکے ہیں، اب اپنی زمین، اپنے کھیت اور اپنے مکانات پانی کی بے رحمی یا پانی کی کمی کے ہاتھوں کھو رہے ہیں۔ ان کیلئے یہ زمین یا گھر وں کا نقصان نہیں ایک طرزِ حیات، ایک ثقافت اور ایک تہذیب کا زوال ہے۔یہ سوال آج ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو وہی پاکستان دے پائیں گے جس کے دریاؤں پر ہماری تہذیب کی بنیاد ہے؟ یا پھر ہم ایک ایسے ریگستان کی وراثت چھوڑ جائیں گے جس میں پانی کا کوئی چشمہ باقی نہ ہوگا؟ دنیا بھر میں اب یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے زیادہ اُن ممالک کو متاثر کر رہی ہے جن کا کاربن کے اخراج میں سب سے کم حصہ ہے۔ پاکستان کا دنیا کے کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن یہ ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ایک عالمی ناانصافی ہے جس پر دنیا کی توجہ مبذول کروانا ہماری سفارتی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ دنیا کو کوسنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے ملک کے اندر بھی ان خطرات سے نمٹنے کیلئے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے۔ ہمیں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنانے ہوں گے، گلیشیرز کی نگرانی کیلئے جدید نظام وضع کرنا ہوگا، مقامی کمیونٹیز کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنی ترقی کے ماڈل کو پائیداری کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو آنے والی صدی ہمارے لئے ایک ’پگھلتی برف کا مرثیہ‘ بن جائے گی۔ وہ برف جو صدیوں سے پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر جم کر ہمارے دریاؤں کو زندگی بخشتی آئی ہے، اب آخری ہچکیوںپر ہے۔