موسم برسات کی ایک رات تھی چاندنی کبھی کبھی سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جھانکنے لگتی تین بجے کا وقت ہوگا...لیکن ٹھہریے۔ پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہونگا کہ یہاں جو واقعات میں بتانے چلا ہوں یہ بیسویں صدی نہیں بلکہ 21ویں صدی میں ترقی یافتہ یورپ کے دل یعنی لندن میں ظہور پذیر ہوئے ہیں یا کم از کم برطانیہ کے لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اگر یہ سب کچھ پڑھ کر آپ کے ماتھے پر بل پڑنے کے بجائے پیٹ میں بل پڑیں تو میں سمجھونگا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب اور سرخرو ہوا۔ پچھلی بار جب میں لندن میں تھا تو ایک روز لندن میں واقع’’ٹاور آف لندن‘‘جانے کی ٹھانی ۔ دراصل انڈر گراؤنڈ میں سفر کرتے ہوئے میری نظر ٹیوب میں چسپاں ایک اشتہار پر پڑی جس میں ٹاور آف لندن دیکھنے کی دعوت دی گئی تھی،میں یہ دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے وہاں جا پہنچا۔ اب آگے کا حال وہاں کےگائیڈ اور ایک میگزین کی زبانی سنیے...وہ کہہ رہا تھا...تین بجے کا وقت ہوگا کہ ٹاور آف لندن کا ایک محافظ اچانک خوف و دہشت سے کانپنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور پھر اسے ایک غیر مرئی ہیولا سا نظر آنے لگا، محافظ کی چیخ و پکار سن کر دوسرے لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے ٹارچوں کی روشنی میں اس پُر اسرار ہیولے کی تلاش شروع کر دی مگر وہ اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا۔ محافظ نے سب لوگوں کو حلیہ بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بھوت دیکھا تھا۔ جس’’یادگار رات‘‘ کا یہ واقعہ ہے اس سے ٹھیک 406 برس قبل اسی ٹاور آف لندن میں انگلستان کی ملکہ جین گرے کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور سر بریدہ ملکہ کا بھوت اس وقت سے لوگوں کو پریشان کرتا رہتا تھا مگر سرکاری ذرائع ان افواہوں کے بارے میں مہر بلب ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو 13 ایکڑ کا یہ قطعہ اراضی جس پر ٹاور آف لندن کی تاریخی عمارت قائم ہے دنیا بھرمیں’’بھوتوں کا ڈیرہ‘‘ کے نام یا کام کی حیثیت سے بدنام یا نامور ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹاور آف لندن کی سنگین دیواروں کے پیچھے تاریخ انگلستان کے سینکڑوں خونیں ڈرامے کھیلے گئے، تاریخ میں اس جائے واردات کو’’سینکڑوں بے گناہوں کا مقتل‘‘کا نام دیا گیا ہے شاید اسی وجہ سے ٹاور آف لندن کے بارے میں دلچسپ داستانیں مشہور ہو گئی ہیں مثلاً ایک محافظ پہرے دار رات کے وقت ٹاور کی نگرانی پر مامور تھا کہ اسے ایک دل دہلا دینے والی چیخ سنائی دی وہ اس سمت بھاگا تو اسے ایک بے ہوش محافظ نظر آیا۔ ہوش آنے پر محافظ نے بتایا کہ ایک سر بریدہ عورت کا دھندلا سا سایہ اسکی جانب بڑھ رہا تھا جسے دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گیا ، اس نے کہا کہ وہ ملکہ این کا بھوت تھا جسے ہنری ہشتم نے قتل کر دیا تھا۔ جنگ عظیم دوم سے قبل ٹاور کے نزدیک کوارٹروں میں ایک عورت رہا کرتی تھی اس نے ملکہ این کے بھوت کو متعدد مرتبہ رات کی تاریکی میں یہاں گھومتے پھرتے دیکھا تھا، لندن ہی کیا پورے دیس میں یہ روایت مشہور ہے کہ جس مقام پر ملکہ این بولین یا لیڈی جین گرے اور دوسری عورتوں کے سر قلم کیے گئے تھے وہاں آج تک گھاس نہیں اُگی۔ ایک روایت ہے کہ پانچ نومبر کی رات کو رسوائے زمانہ’’گائے فاکس‘‘کا بھوت ٹاور میں نظر آیا۔ گائے فاکس وہی شخص ہے جس نےپارلیمنٹ پر قبضہ تو نہ کیا لیکن پارلیمنٹ کی عمارت کو بارود سے اڑا دینے کی بھیانک سازش ضرور کی تھی کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ،گائے فاکس کو تفتیش کیلئےاسی قلعہ میں لایا گیا تھا یاد رہے کہ ٹاور کی جگہ ایک زمانے میں لندن کا تاریخی قلعہ تھا ،جو قید خانے اور ظلم و ستم کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ ایک مشہور اخبار نویس ڈیوڈ ڈی نے 1904 میں ایک رات اس ٹاور میں گزاری تھی اسے بھوتوں کے بارے میں جاننے اور ملاقات کا بہت شوق تھا یہی شوق اسے ٹاور میں لے آیا۔اس نے اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں کہ ٹاور آف لندن ایک دہشت انگیز جگہ ہے رات کو جب دریا ٹیمز کی جانب سے ہوا کے تیز تند جھونکےچیختے چلاتے ٹاور کی جانب آتے ہیں تو انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینکڑوں لشکری کسی قیدی کو مقتل لے جا رہے ہیں یہ منظر بڑا دلخراش ہوتا ہے۔ اس وقت ایک بھوت ٹاور کی بالائی منزل میں نظر آتا ہے مشہور ماہر فلکیات اور جادوگر ہیوز رپر کی بے چین روح سے تعبیر کیا جانے والا واقعہ جہاں وقوع پذیر ہوا تھا اس مقام کو’’جادوگر کا ٹاور‘‘ کہا جاتا ہے اس ستاروں کا علم جاننے والے جادوگر کو گرفتار کر کے اس قلعہ میں لایا گیا تھا جہاں دوران قیدوہ اجرام فلکی کے بارے میں اپنے مشاہدے کرتا رہا۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ اسکی روح اپنے نامکمل تجربات کی تکمیل کیلئےیہاں آتی رہتی ہے۔ ٹاور سے عجیب و غریب آوازیں اور چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں جس کے بارے میں سب سے دلچسپ روایت یہ ہے کہ موگر نامی ایک جلاد نے لیڈی جین گرےکا سرتن سے جدا کیا تھا اسے اپنی موت سے ایک رات قبل ایک ایسی عورت کاہیولا نظر آیا تھا جو سر سے پیر تک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی اس نے مقتل کے چار چکر لگائے اور پھر غائب ہو گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مندرجہ بالا روایتیں جوں کی توں برطانوی معاشرے میں موجود ہیں لیکن شنید یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ٹاور میں ہر جگہ معقول روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ’’اندھیرے‘‘ میں چلنے پھرنے والے ہیولوںکا سد باب کیا جا سکے، اگر برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے تو ساہنوں کیہ.....!