• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرتی آفت میں اگر انسانی غفلت اور حکومتی بدانتظامی بھی شامل ہو جائے تو نقصان کی شدت میں اضافہ ہونا ایک فطری عمل بن جاتا ہے۔ پرخطر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں طویل و قلیل مدت دونوں طرح کی منصوبہ بندی کی اشد ضرورت اس لیے ہے کہ ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو پہلے سے کئی مسائل کا سامنا ہے اور ایک اور مصیبت مول لینا ہمارے مفاد میں ہرگز نہیں ۔ اس لیے ان قدرتی آفات کے دوران محض فائر فائٹنگ کی حکمت عملی سے گزارا ممکن نظر نہیں آتا۔ حکومتی وزراء اور سرکاری افسران کے مسلسل دوروں کے باوجود معاملات کو سنبھالنا اتنا آسان نہیں کیونکہ کسی بھی قدرتی آفت کے آنے سے پہلے اس سے نمٹنے کی تیاری کرنا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ تصاویر یا پبلسٹی مہم کی حد تک یہ مناظر بہت اچھے لگتے ہیں کہ حکومتی وزراء اور افسران دریائوں کے کنارے بند اور بیراج کے اوپر چارپائیاں ڈال کر امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے خاموشی سے کرنے والے بہت کام ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مہینوں پہلے سے ہی آفات سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے اداروں کو فعال کیا جائے، وہ اپنی تحقیق اور تجزیے، ماضی کے سانحات اور ان سے ہونیوالے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کریں۔ وہ تمام حکومتی وزرا جو اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں، وہ پہلے سے ہی فلڈ کمیٹیوں میں کام کریں۔ اور سیلاب یا کسی بھی قدرتی آفت کے آنے سے پہلے ایک ایسی منصوبہ بندی تیار کی جائے جس سے ڈیمیج کنٹرول کیا جا سکے یعنی نقصان کم سے کم ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہی توقع کرنی چاہیے کہ آنے والے سالوں میں بھی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات میں حکومتی بد انتظامی اور غفلت کی وجہ سے نقصان زیادہ ہوگا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر ریسرچ رپورٹس، فیکٹ فائنڈنگ کمیشنز اور تحقیقات کے نام پر بہت کچھ ہوا لیکن عملی طور پر ان کو سامنے رکھتے ہوئے اقدامات نہیں کیے گئے۔ 2010 کے بدترین سیلاب میں حکومت پنجاب کی جانب سے ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ سیلاب کے دوران حکومتی سطح پر افسران اور محکموں سے کہاں کہاں پر غلطیاں ہوئیں اور انتظامی طور پر ان چیزوں کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے اس پر 500 صفحات کے لگ بھگ ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی لیکن اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل نہیں ہو سکا۔ اس رپورٹ میں سیلاب اور اس سے منسلک تمام پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ تیکنیکی طور پر کس دریا کے بند کو کہاں سے توڑنا چاہیے، اس حوالے سے بھی حکومتی افسران کی غفلت یا سیاسی دباؤ کی نشاندہی کی گئی لیکن معاملہ پھر وہی ہے کہ کیا ان سفارشات پر عمل کیا گیا؟کیا غفلت اور بد انتظامی کے مرتکب افسران کو سزائیں دی گئی؟ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس رپورٹ کو باقی تمام کمیشنوں کی رپورٹ کی طرح ایک طرف رکھ دیا گیا۔


2010 کے سیلاب کو تو 15 سال بیت گئے لیکن 2022 کا سیلاب ہمارے سامنے ہے جسے محض تین سال ہوئے ہیں اس وقت اس سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور تین کروڑ سے زائد پاکستانی اس سے متاثر ہوئے۔لیکن حکمت عملی میں کیا تبدیلیاں لائی گئیں اس کا جواب موجود نہیں۔ وہی وزراء کے دورے، فوٹو سیشن، امدای کیمپ، مرنے والوں کیلئے پیکیج کا اعلان، بند اور بیراجوں کی تعمیر و مرمت کے دعوے، لیکن سیلاب سے پہلے کئے جانے والے اقدامات کی اہمیت پر زور نہیں دیا جاتا۔ دریاؤں کے علاقے میں موجود تجاوزات کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہمیشہ حکومت اس میں ناکام نظر آتی ہے۔ سال کے 365 دن اس حوالے سے ایک بھرپور اور پراثر حکومتی مہم کی اشد ضرورت ہے ۔ مثال کے طور پر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دریائے راوی کا جو علاقہ شہر لاہور سے گزر رہا ہے اس کے دونوں اطراف کئی کلومیٹر پر بند تعمیر کیا جائے گا جس پر پہلے مرحلے میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ کاغذوں میں تو موجود تھا لیکن یہ سوال پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کہ دریائے راوی کے گرد حفاظتی بند کی تعمیر سے پہلے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز کو کس نے اجازت دی کہ وہ کروڑوں روپے کی مالیت کے رہائشی اور کمرشل پلاٹس عوام کو فروخت کریں۔ آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے نندی پور گوجرانوالہ میں انگریزوں نے ایریگیشن ریسرچ اسٹیشن بنایا تھا، آبی ذخائر کے بہتر انتظام، منصوبہ بندی اور مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ادارے میں دریاؤں کے قدرتی بہائو پر تفصیلی کام کیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی مختلف مواقع پر خصوصاََ سندھ طاس معاہدہ کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ایک ایک دریا، بیراج، بند، نہر پر تفصیلی تحقیقاتی کام کیا گیا۔ ماہرین نے تمام امکانات کو سامنے رکھا کہ کہاں کہاں پانی کا قدرتی بہاؤ ہے، سیلاب میں بند کہاں سے توڑنے پر نقصان کم ہو گا اور پانی قدرتی بہاؤ سے آگے چلا جائے گا۔ دریا، بیراج، نہروں کے ماڈلز بنا کر ڈرائنگز کے ذریعے منصوبہ بندی کی گئی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہر پانچ سات بعد خبر آتی ہے کہ اس ادارے کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنا جائے گا، ایک سنٹر آف ایکسی لینس ہو گا جہاں پانی سے متعلق امور پر بہترین تحقیقاتی کام کیا جائے گا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح کے ادارے اور لیبارٹریز 60 سال پہلے حیدرآباد اور کراچی میں بھی بنائے گئے تھے تاکہ سندھ اور بلوچستان میں آبی امور پر ٹھوس کام کیا جائے لیکن افسوس وہاں بھی کسی حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ ایسے اداروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے مضبوط بنیادوں پر آبی آفات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین