کئی برس پرانی بات ہے کہ فلم انڈسٹری نے ایک فلم بنائی تھی ’’بدنام‘‘ جس میں علاؤ الدین ،رنگیلا ،نیلو ،اعجاز درانی اور دیگر اداکاروں نے کام کیا تھا، اس فلم کا ایک گانا انتہائی مقبول ہواتھا ۔جو ثریا ملتا نیکر نے گایا تھااپنی تھر تھراتی منفرد آواز میں ۔برصغیر میں دو گلوکاروں کی آواز تھرتھراتی تھی ایک طلعت محمود اور دوسری ثریا ملتا نیکر کی۔اس گانے کے دو شعر ایسے ہیں جو آج بھی سیلاب متاثرین کے حالات پر پوری طرح فٹ یا صادق آتے ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اقبال شہزاد تھے اس دور کی فلم کا یہ غالباََ آئٹم سونگ تھا جس میں زمرد کا ستار پر گانا اور نبیلہ کا رقص پکچرائز کیا گیا تھا شعر کچھ یوں ہے:
ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر
نہ یوں پیار سے دیکھئے بندہ پرور
میرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے
انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا
بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر
مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا
ستمگر سے جوروستم کی شکایت
نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے
مرے آنسوئو تم میرا ساتھ دینا
انہیں کچھ بتانے کی کوشش نہ کرنا
لاکھوں لوگ صوبہ پنجاب، سندھ اور کے پی کے سیلاب سے بے گھر اور برباد ہو چکے ہیں اور ہمارے حکمران آج بھی قیمتی کپڑے اور مہنگی عینکیں پہن کر متاثرین کے پاس جا کر مسکرا کر کس طرح یہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں حکومت سب کو مکان بنا کر دے گی ۔ ارے بابا آپ کیسے ان لاکھوں متاثرین کو گھر بنا کر دیں گے ان متاثرین کو اپنی زندگی کو معمول پر لانے کیلئے کم سے کم دو سال چاہئیں۔ دوسری طرف محکمہ موسمیات اور این ایم ڈی اے نے کہہ دیا ہے کہ اگلے سال 22 فیصد زیادہ سیلاب اور بارشیں آئیں گی۔آج کے متاثرین ابھی سنبھلنے بھی نہیں پائیں گے کہ پھر بارشیں اور سیلاب آ جائے گا۔ ارے عقل مندو ! آپ کے پاس کئی ایسے ادارے ہیں جو آپ کو ایک عرصہ سے آگاہ کر رہے تھے کہ بارشیں اور سیلاب آنے والے ہیں اور دوسری طرف آپ کو نہیں پتہ کہ بھارت کے ڈیم جب بھر جائیں گے تو وہ پانی کو کدھر بھیجتا ہے؟ وہ پانی یقیناََ اترائی کی طرف آئے گا اور اس کا رخ پنجاب کے دریاؤں کی طرف ہوگا ہمارے ہاں سندھ طاس کے معاہدے کے بعد یہ بات عام کر دی گئی کہ اب راوی ستلج،چناب اور بیاس وغیرہ میں کبھی پانی نہیں آئے گا یہ دریا ہمیشہ کیلئے خشک ہو چکے ہیں اور راوی کے پاس بستیاں اور ہاؤسنگ اسکیمیں بنا ڈالیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم نے سیلاب سے نمٹنے کیلئے پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی ،پتہ نہیں کون سی منصوبہ بندی تھی۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کے چھوٹے افسروں سے لے کر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم تک ہر کوئی سیلاب متاثرین کیلئے خوبصورت اور بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے عملاََکچھ نہیں۔آپ چھوٹے چھوٹےبچے جن کو کوئی سمجھ بوجھ نہیں ان کے ساتھ کیا ہوا ہے ان کو چند بسکٹ ،ٹافیاں اور کپڑے دے کر خوش کر رہے ہیں۔ ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ پیسہ نہیں تو دوسری طرف حکومتی امداد کے ہر پیکٹ پر ایک تصویر اور خوبصورت الفاظ تحریر ہیں۔ پلاسٹک کے ان لفافوں کی تیاری اور پرنٹنگ پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ یہی لاکھوں روپے آپ یہاں سے بچا کر لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کریں۔آپ کے پاس ایل ڈبلیو ایم سی کے لاکھوں پرنٹ شدہ پلاسٹک کے بیگ پڑے ہیں آپ انہی کو استعمال کریں اور اس میں امدادی سامان فراہم کریں۔ ہمارے ملک میں جب بھی سیلاب آتے رہے یا زلزلے آئے تو کئی امدادی کارکنوں اور اداروں نے کھانے پینے کی اشیاء اپنے خرچ پر متاثرین تک پہنچائیں۔آج کیا دلچسپ دلیل دے کر امدادی کام کرنے والوں کو روکا جا رہا ہے کہ کیا پتہ ان کے کھانے میں کوئی خطرناک مضرصحت اشیاء شامل نہ ہوں؟۔ ارے بابا خشک بسکٹ خشک دودھ اور خشک میوہ جات میں کیا مضر صحت چیزیں ہوں گی ۔ دوسری طرف اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ حکومت جو کھانے پینے کی چیزیں فراہم کر رہی ہےوہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہیں کیا فوڈ اتھارٹی والوں نے حکومت کے تیار کردہ خوراک کے پیکٹوں کو چیک کیا تھا؟ ارے بابا سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد پانی اور خوراک کو ترس رہے ہیں۔ ظاہر ہےحکومت تمام متاثرین سیلاب کو خوراک ،پانی اورادویات فراہم نہیں کر سکتی اگر کچھ اللہ کے نیک بندے یہ کام کر رہے ہیں تو کیوں حکومت کے اسسٹنٹ کمشنر، ڈی سی یا دوسرے عہدے دار اُن کو یہ راشن تقسیم نہیں کرنے دے رہے۔ انسان لوگوں کے دلوں میں تقاریر کے ذریعے زندہ نہیں رہتے بلکہ اپنے کام و کردار سے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت میاں میر رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت بی بی پاک دامن، حضرت مادھولال حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت پیر مکی، حضرت شاہ جمال اور دیگر اولیائے کرام فوٹو سیشن یا اس زمانے کے رواج کے مطابق ڈھول بجا بجا کر زندہ نہیں رہے بلکہ اپنے اخلاق اور کردار اور رفاہی کاموں سےآج تک زندہ ہیں۔
ہماری فوج پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں، چاہے سیلاب ہو یا زلزلہ یا دہشت گردی ہو ہر محاذ پر سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے ۔حالیہ سیلاب میں جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس محنت اور ہمت کے ساتھ متاثرین کو سیلاب زدہ علاقوں سے محفوظ علاقوں میں فوج منتقل کر رہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ پولیس بھی اس حوالے سے کافی کام کر رہی ہے لیکن لوگوں کو1122سے کچھ شکایات بھی سامنے آئی ہیں1122کے سربراہ ڈاکٹر رضوان گو کہ ایک مدت سے لوگوں کی جانیںبچانے کا کام کر رہے ہیں لیکن ان کا اسٹاف خصوصا جو لوگ ایمبولنس لے کر جاتے ہیں اور جو لوگ کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو بچا رہے ہیں ان کا رویہ بالکل اچھا نہیں اور اس بارے میں شکایات بھی سامنے آچکی ہیں جو لوگوں سے ہزاروں روپے لے کر انہیں کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بیوروکریسی اور ان کے اسٹاف سے لوگوں کو بے شمار شکایات ہیں ۔ہمیں تو کسی بھی حکمران کے چہرے پر کوئی کرب ،تکلیف نظر نہیں آئی لوگوں کو مسکرا کر چھوٹی چھوٹی چیزیں دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اس کے بعد بیماریوں نے سر اٹھا لینا ہے پھر کیا کریں گے۔