• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین پر ڈھائی جانے والی قیامت صغر یٰ کی روداد اپنے بزرگوں سے سنتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا تھا ان کی آنکھوں میں برسوں سے بہتی ہوئی ندیاں سوکھ کر ویران ہو چکی تھیں قربانیوں کی خون ریزداستانیں بیان کرتے ہوئے ان کی بنجر آنکھوں کے صحرائوں میں یک لخت سیلاب امڈ آتا زبان لڑکھڑانے لگتی اور ڈبڈبائی آنکھیں دور خلائوں کوگھورنے لگتی تھیں۔قربانیوں کی لاکھوں دلخراش داستانیں وقت کے دبیز پردوں کی اوٹ میںکٹے پھٹے جسم، لٹتی ہوئی عصمتیں ماں باپ اور لاچار بھائیوں کی بدنصیب نظروں کے سامنے اغواہوتی بہنوں اور بیٹیوں کی آسمان کا کلیجہ کاٹ دینے والی فلک شگاف چیخیں آج بھی ان کی سماعت کے پردوں پر قہر ڈھارہی تھیں۔ وہ بزرگ زندہ لاش تھے تلخ ترین یادوں کے بے رحم زخموں نے ان کی روحوں کو بھنبھوڑ ڈالا تھا، وہ اپنی گھائل روح پر زخموں کے عمیق داغ لیے دار فانی کو خیرباد کہہ گئے۔ تاریخ کے کھنڈرات سے آج بھی ان کی درد بھری صدائوں کی گونج سنائی دے رہی ہے کہ اس گلشن کی تزئین وآرائش میں ہمارا بھی لہو موجود ہے اس خزاں رسیدہ چمن میں جب بھی بہار لوٹے تو ہمارے ساتھ کھیلی گئی خون کی ہوئی کا شمار بھی کر لینا تم جس دئیے کی روشنی میں امن وعافیت کے ساتھ بیٹھے ہواسے جلانے کیلئے ہم نے تاریخ کی عبرتناک بربریت اور درندگی کا قہر جھیلا ہے کاش تم تاریخ کے دریچوں سے ان کر بلائوں کے خونیں مناظر دیکھ سکو جہاں بچوں کو ان کی مائوں کے روبروبر چھیوں اورنیزوں کی انیوں پہ چڑھا دیا گیا زندہ انسانوں کو بھڑکتی آگ میں بھونا گیا اور ہزاروں پارسا حیا پیکر دو شیزائوں کی پارسائی کو تار تار کر دیا گیا مگر اپنے جگر کے ٹکڑے خون میں لت پت چھوڑ کر وہ سسکتے بلکتے اپنے خوابوں کے دیس میںچلے آئے تھے۔ بے رحم قزاقوں نے ان کا سب کچھ لوٹ لیا تھا لیکن اب بھی ان کے گرد آلود خواب قائداعظم کی صورت ان کی آنکھوں کے گھائل پردوں پر لہرارہے تھے قسمت کی خوبی دیکھئے کہ لب بام کمند ٹوٹ گئی بد نصیبی کہ کنارا ہاتھ سے لگتے ہی چھوٹ گیا میرے عظیم قائد اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور وطن عزیز کی نائو طغیا نیوں کی نذر ہوگئی جو 78برسوں کے بعد بھی بھنورمیںہے۔ا س بار یوم آزادی کی شام بھی دن بھر باجوں کی گھن گرج اور ہلڑ بازیوں کے زخم لے کر ڈھل گئی بحیثیت قوم ہم 78برسوں بعد بھی یہ طے نہ کر سکے کہ لاکھوں قربانیوں کا بھرم کیسے رکھنا ہو گا ،ہمیں آزادی کے نغمے تو یاد ہیں مگر ہم قربانیوں کے نوحے کیونکر بھول جاتے ہیں، آزادی کا تہوار منانے کیلئے صرف ایک دن ہی خاص کیوں ہے باقی 364دنوں میں ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کا تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں۔ 14اگست کا عظیم الشان دن ہم نے رسماً محض ذہنی تفریح کیلئے مخصوص کرلیا ہے زندہ دل قوم اور سیاسی مسیحا احساس سے عاری قالب سے نکل کر گنگاوجمنا کی سرخ لہروں پر تیرتی ہوئی بد نصیب لاشیں ،جو اپنی آنکھوں میں حسین خواب سجائے پاکستان ہجرت کر رہے تھے جن کے محض خواب ہی نہیں چھینے گئے بلکہ بے رحمی سے ان کے جسم چھید کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ہمیں یاد رکھنا ہوگا اقوام عالم کی تاریخ اس قدر ظلم وسفاکیت اور قتل وغارت گری کی مثال پیش نہیں کر سکتی یہ سب بے سبب نہیں تھا بلکہ پس پردہ عظیم اسلامی مقاصد کار فرما تھے جبکہ قائد اعظم اوراکا برین ملت نے برصغیر میں مسلمانوںکیلئے ایک آزاد مملکت کا تصور ہزار سالہ اسلامی تمدن کی حفاظت اور بقاکیلئے پیش کیا تھا ۔وہ چاہتے تھے کہ وطن عزیز میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ ہے مگر ہم بطور قوم اور سیاست دان کسی ایسے نظام سے منحرف رہے جہاں عدل وانصاف کا نظام رائج ہو اور دولت کی تقسیم منصفا نہ اصولوں پر مبنی ہو مگر یہ نہ ہو سکا کیونکہ 78برسوں سے ملکی وسائل پر سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی قابض رہے جسکی بدولت غریبوں کا بد ترین استحصال ہوتا رہا اور 65فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر ہم قائداعظم کی مرتب کردہ معاشی پالیسی کو اپنا لیتے تو آج ہم براعظم ایشیا کی سپرپاور ہوتے کئی دہائیوں سے کوئی معاشی منصوبہ ترتیب نہیں دیا جاسکا جسکی بدولت غریب کی غربت اس کی نسلوں میں سرایت کر گئی اور ایک مخصوص طبقے کی شہ خرچیوں اور عیاشیوں کی خاطر لیا گیا قرض غریبوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔پاکستان کی نائو کو ان بدترین حالات کی موجوں کی نذر کرنے کا سہرا کسی ایک سیاست دان یا غیر آئینی ڈکٹیٹر کے سر نہیں باندھاجاسکتا بلکہ ہر دور میں سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ملکی معیشت پر قابض ایک خاص طبقے نے اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ خوب دھوئے ہیں ،یہ سیاہ رات کسی طور بھی ختم نہ ہو سکی موجودہ دور میں صوبہ پنجاب کے تین بار بہترین ایڈمنسڑیٹو رہنے والے شہباز شریف سے ہم بہت پر امید تھے لیکن اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے نوکیلے دانت اب بھی وطن عزیز کی شہ رگ میں پیوست ہیں شہباز شریف اگر پاکستان کو قائداعظم کا مثالی پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو فیصلے کریں فاصلوں سے نہ ڈریں فیصلے اہم ہوتے ہیں فاصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ورنہ لاکھوں شہدا کی قربانیاں یونہی سوال بنی رہیں گی۔

تازہ ترین