رب تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو حالیہ دنوں میں دو ایسی عظیم کامیابیاں حاصل ہوئیں جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی خوشی اور اطمینان کا باعث بنیں۔ پہلی خوشی کا تعلق ہماری افواج کی بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ میں شاندار کامیابی تھی۔دراصل آج کے دور میں کفر کے خلاف اسلام کی یہ ایسی شاندار کامیابی ہے کہ مسلمان کیا غیر مسلم بھی پاکستانی فوج کی صلاحیتوں کی تعریف کرنے لگے ہیں۔دوسری بڑی خوشی کا تعلق چند دن قبل پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک تاریخی اسٹرٹیجک دفاعی معاہدے سے ہے، جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری امت مسلمہ کے مستقبل کیلئے امید کی ایک نئی کرن ہے۔ پہلے میرے رب کے فضل و کرم سے پاک فوج نے بھارت جیسی بڑی قوت ،جس کا اسرائیل نے کھل کر ساتھ دیا ،کو زیر کر کے اپنی دفاعی قوت کا لوہا منوایا جسکے نتیجہ میں ہمیں یہ دوسری خوشی نصیب ہوئی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ کوئی معمولی دستاویز نہیں۔ اسکے تحت دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا۔ یہ ایک ایسا مضبوط دفاعی بندھن ہے جو دونوں ممالک کی سلامتی کو ایک دوسرے سے وابستہ کر دے گا۔ اس کی اہمیت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالم اسلام انتشار اور بکھراؤ کا شکار ہے۔ دہائیوں سے مسلم ممالک کسی نہ کسی بہانے یکے بعد دیگرے تباہ کیے جا رہے ہیں، اور ہم بے بسی سے تماشائی بنے دیکھتے رہے ہیں۔ سعودی عرب، جہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات ہیں، کی حفاظت کی سعادت اب پاکستان کو نصیب ہوگی۔ یہ کوئی عام فریضہ نہیں ہے، بلکہ ایک اعزاز ہے کہ ہماری فوج، جو درحقیقت اسلام کی فوج ہے اور اسے اسلام کی ہی فوج بننا ہے، اس مقدس زمین کی نگرانی کرے گی۔ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع عطا کیاہے۔ اس معاہدے کے پیچھے موجودہ عالمی حالات کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ امریکا، جو کبھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا دفاعی ضامن تھا، اب قابل اعتماد نہیں رہا۔ قطر پر اسرائیلی حملہ اس کی واضح مثال ہے، جہاں امریکا نے پہلے سے اطلاع ہونے کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا۔ امریکا بلاشبہ گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر اُس کیساتھ ہے، اور مسلم ممالک کو اسکا احساس ہو چکا ہے کہ اسرائیل کیخلاف ، امریکا کبھی اُن کیساتھ کھڑا نہیں ہو گا اسلئے آہنی دفاع کیلئے وہ اپنے برادر ملک پاکستان پر اعتبار کر سکتے ہیں جو ایک ایٹمی قوت بھی ہے اور جسکی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب جیسے اہم ترین ملک کے بعد دیگر عرب ممالک بھی جلد پاکستان کیساتھ اسی قسم کے معاہدوں پر دستخط کرینگے۔ دنیا بھر میں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ یہ درحقیقت ایک’’مسلم نیٹو‘‘ کے قیام کی پہلی اینٹ ہے۔ میری خواہش ہے کہ ایسا ہی ہو۔یہ وہ خواب ہے جو کئی دہائیوں سے دیکھا جا رہا تھا، اور اب اللّٰہ کے فضل سے اس پر عمل ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ معاشی نقطہ نظر سے بھی یہ معاہدہ پاکستان کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ہماری معیشت اس وقت سنگین مشکلات سے دوچار ہے، اور سعودی عرب کی طرف سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کی توقع ہے۔ لیکن ہمیں اس موقع پر اپنی پرانی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بحیثیت ایک ایٹمی طاقت، ہم بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔ پہلے بھی ہمیں قرضے ملے، امداد ملی، لیکن ہم نے اپنے گھر کو درست نہیں کیا۔ ہم نے ٹیکس نظام کی اصلاح نہیں کی، سرکاری اداروں کو کارآمد نہیں بنایا اور بدعنوانی پر قابو نہیں پایا۔ اب ہمیں ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے گھر کو سنبھالنا ہوگا۔ ہمیں معاشی خودمختاری حاصل کرنا ہوگی، تبھی ہم ایک حقیقی طاقت بن سکتے ہیں۔ بیرونی امداد عارضی سہارا ہے، مستقل حل ہماری اپنی محنت اور اصلاحات میں ہے۔ ہمیں اپنی صنعتوں کو مضبوط بنانا ہوگا، برآمدات بڑھانی ہوں گی اور معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا۔ تبھی ہم ایک طاقتور فوجی قوت کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط معاشی قوت بھی بن سکتے ہیں اور اسی صورت میں دوسرے مسلمان ممالک کے بہتر انداز میں کام آ سکتے ہیں۔ اس موقع پر افسوس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے کئی سوشل میڈیا فالورز نے اس معاہدے کی مخالفت میں زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی سیاسی تنگ نظری اور نفرت میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں قومی مفاد اور امتِ مسلمہ کے اتحاد جیسی عظیم الشان چیز بھی نظر نہیں آتی۔ وہ اس معاہدے کو بھی اپنی تنگ نظر سیاست کی بھینٹ چڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی اس روش پر تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو غور کرنا چاہیے اور انہیں احساس دلانا چاہیے کہ قومی سلامتی اور امت کے اتحاد جیسے معاملات میں ہم سب کو یکجا ہو جانا چاہیے۔ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اتحاد کی اس راہ پر ڈالا۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ اتحاد مزید پھولے پھلے اور اس میں دیگر مسلم ممالک بھی شامل ہوں۔ ساتھ ہی ہمیں چاہیے کہ ہم روس اور چین جیسی طاقتوں کو بھی اس اتحاد میں شامل کریں، تاکہ امریکا اور یورپ کی مسلم مخالف پالیسیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ بحیثیت پاکستانی ہم سب کو مل کر عہد کرنا چاہئےکہ ہم اپنی سیاست کو اپنے دینی اور ریاستی معاملے پر ترجیح نہیں دیں گے، اپنی معیشت کو مستحکم کرینگے اور اپنی افواج کی ہر ممکن حمایت کرینگے۔ تبھی ہم ایک مضبوط اور خودمختار قوم بن سکتے ہیں، اور تبھی ہم امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ صحیح طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے محافظین کو ثابت قدمی عطا فرمائے، تمام اسلامی ممالک کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، اور ہمیں اتحاد و یگانگت کی نعمت سے نوازے۔ آمین۔