• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حسن راشد، حیدرآباد

حیدر آبادشہر کے وسط میں مارکیٹ ٹاور چوک اور سخی پیر کے درمیان میمن پاڑے کے نام سے ایک قدیم و خُوب صُورت محلّہ ہے، جہاں مختلف شہروں اور علاقوں سے آکر آباد ہونے والی میمن برادری کی ایک کثیر تعداد مقیم ہے۔ یہیں، خان بہادر محمد صدیق میمن کی رہائش گاہ پر اُن کی تیسری پیڑی پروان چڑھ رہی ہے۔ میمن پاڑے کے بالمقابل ’’مدرسۃ البنات، ہائی اسکول‘‘ بھی صدیق میمن کاقائم کردہ ایک تعلیمی ادارہ ہے، جہاں سے اُن کی پانچ بیٹیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوئیں۔ 

اس اسکول میں ماضی کی معروف پاکستانی اداکارہ، نیلی بھی زیر تعلیم رہیں۔ خان بہادر کی قبر، اسکول کے احاطے میں موجود ہے۔ اسکول سے متصل، گورنمنٹ خان بہادر صدیق میمن گرلزڈگری کالج کی دل کش عمارت دُور ہی سے نظر آجاتی ہے۔ بھٹو دَورِ حکومت میں اسکول اور کالج قومیائے جانے کے بعد اُن کے بڑے بیٹے عبدالرسول نے اپنے نام سے میمن پاڑے میں نجی گرلز اسکول’’اے آربنات‘‘ قائم کیا، جو شروع میں صرف طالبات کے لیے مخصوص تھا۔ 

تاہم، اب یہاں مخلوط تعلیم رائج ہے۔ میمن محلّے کی دیدہ زیب، تاریخی و قدیم عمارتیں، ماضی کے جھروکوں میں لے جاتی ہیں۔ اس قدیم محلّے میں سندھی میمنوں کی تعمیر کردہ ’’میمن مسجد‘‘ سے متصل ایک گُم نام بزرگ کی قبر کے علاوہ ایک تاریخی عمارت ’’قصرِ شیریں‘‘بھی واقع ہے، جو کبھی سیٹھ مریدعلی میمن مرحوم تاجر کی ملکیت تھی۔ 

سیٹھ کمال الدین میمن اسی تاجر کے بیٹے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور تعلیمی خدمات کے حوالے سے سیٹھ کمال الدین میمن مرحوم کا شمار حیدرآباد کے اُن محسنوں میں کیاجاتا ہے، جن کے لگائے پودے، تناوَر درخت کا رُوپ دھار کرپھل دے رہے ہیں اور علم وعمل کی شمع روشن کررہے ہیں۔

سیٹھ کمال 2فروری 1909ء کو پیدا ہوئے اور17جنوری1978ء کو اُن کا انتقال ہوا۔ اُن کے ایک اکلوتے بھائی شہاب الدین میمن فاریسٹ آفیسر تھے۔ حیدرآباد کا ایک مشہور اور قدیم سنیما ’’شہاب سینما‘‘اُن ہی کے نام سے موسوم تھا۔ اُن کے چچا زاد، غلام نبی میمن، معروف قانون دان تھے، جومغربی پاکستان کے وزیرِقانون بھی رہے۔ سیٹھ کمال الدین لکڑیوں کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ 

حیدر آباد میں اُن کی رہائش گاہ کے قریب آج بھی شہر کی سب سے بڑی لکڑیوں کی منڈی ’’ٹمبر مارکیٹ‘‘موجود ہے۔ خدمت ِ خلق کے جذبے سے سرشار، سیٹھ کمال کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور حیدر آباد میں آج بھی اُن کی شناخت اسی حوالے سے ہے۔ اُن کی اولادمیں چھے بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔ مارکیٹ چوک پر ’’زرّین شادی ہال‘‘ اُن کی سب سے بڑی بیٹی، زرّین کے نام پر ہے۔ 1986ء میں تعمیر کیے گئے اس شادی ہال کا شمارحیدرآبادکے اوّلین شادی ہالز میں کیا جاتا ہے۔ 

جب کہ سب سے چھوٹی بیٹی شیریں کے نام پر اُن کی رہائش گاہ ’’قصرِ شیریں‘‘ ہے۔ بڑے صاحب زادے، بشیرمیمن مرحوم کاروبار سے وابستہ، ان سے چھوٹے، نذیر احمد میمن عرف شیدو واپڈا میں ملازم، تیسرے شبیر احمد میمن، اسسٹنٹ جیلر تھے، چوتھے انور حسین میمن سندھ سیڈ کارپوریشن سے ریٹائرڈ، پانچویں، وزیرعلی عرف وزّو وکالت کے پیشے اورچھٹے صاحب زادے، منورحسین میمن فائن آرٹسٹ سے وابستہ ہیں۔

سیٹھ کمال الدین پاکستان کے اُن سپوتوں میں سے ایک تھے، جن کے لیے مادرِ وطن کا تقدّس و استحکام ہی سب کچھ اور پاکستان کی عظمت، تعمیر و ترقی سرمایۂ فکر و عمل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عزت سے زندہ رہنا اور مسلسل جدوجہد کرنا سکھایا۔ تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ پاکستان کو ایک آزاد، خودمختار، اسلامی، جمہوری و فلاحی مملکت بنانے کے لیے اپنی قوت ِبازو پر بھروسا بہت ضروری ہے۔ 

اسی سوچ اور جذبے کے تحت قیامِ پاکستان کے فوری بعد ہی سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حیدرآباد میں نور محمد ہائی اسکول، لاڑکانہ کے رہائشی اور نام وَر وکیل نور محمد کے نام سے قائم کرکے وہاں سندھی زبان وادب کی ترویج و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ نیز، قیامِ پاکستان کے وقت، بھارت سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری میں بھی بھرپور تعاون کیا۔ (یاد رہے، جودھ پور اور حیدرآبادکے معروف شاعر، قمر جودھ پوری بھی مہاجرین کی بحالی کے کاموں میں اُن کے ساتھ شریک رہے۔) 

ایوب خان کے دَورِ حکومت میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے اور شہریوں کی بلا امتیاز خدمت کی۔ صحافت میں بھی سرگرم عمل رہے۔ اُن کا جاری کردہ سندھی ہفت روزہ’’ الکمال‘‘ اُس دَور کے بہترین جریدوں میں شمار ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ سیٹھ کمال نے نہ صرف اپنی برادری، بلکہ حیدر آباد شہر کے باسیوں کے لیے دن رات بے پناہ خدمات انجام دیں، زندگی بھر سخت محنت کی۔ اولاد کو رزقِ حلال کھلایا اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ان کی سیاسی جدوجہد اور خدمات کے اعتراف میں معروف سیاسی رہنما، مخدوم طالب المولیٰ نے انھیں ’’بابائے الیکشن‘‘ کےخطاب سے نوازا تھا۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار

برائے صفحہ’’ ناقابلِ فراموش‘‘

٭ علم اور تجربہ (ظہیر انجم تبسّم، جی پی او، خوشاب)٭ بچپن سے اولاد کی تربیت کا ایک نمونہ (جمیل احمد اعوان ، سبزہ زار اسکیم، ملتان روڈ، لاہور)۔

ؕبرائے صفحہ’’ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘

٭ پیارے والد ، محمد افضال (شیرین افضال، ٹیمپل روڈ، لاہور) ٭دوستی (طیّبہ اسلم، سونی پورہ، سرگودھا)٭ میری تایازاد بہن، سیّدہ فرح ندیم رضوی +میرے استادِ محترم، سیّد مختار علی اجمیری (سیّد ذوالفقار حسین نقوی، نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی)۔

برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

٭ یہ ہے قانونِ قدرت (اسلم قریشی، آٹو بھان روڈ، ٹھنڈی سڑک، حیدر آباد)٭ جہیز اور تعداد ازواج (دانیال حسین چغتائی) ٭ ریٹائرمنٹ کو ہراسمنٹ نہ بنائیں (ایم شمیم نوید ، گلشنِ اقبال، کراچی)۔